پی ٹی آئی کی رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری کا پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان

اپ ڈیٹ 23 مئ 2023
شیری مزاری نے کہا کہ میں 9، 10 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہوں — فوٹو: ڈان نیوز
شیری مزاری نے کہا کہ میں 9، 10 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہوں — فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر شیریں مزاری نے 9 مئی کے واقعات کے مذمت کرتے ہوئے پارٹی اور سیاست چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شیریں مزاری نے کہا کہ میں 9 مئی کے واقعات کے مذمت کرتی ہوں، ریاستی علامات جیسے پارلیمنٹ، سپریم کورٹ اور جی ایچ کیو پر پرتشدد مظاہرے اور توڑ پھوڑ کی بہت زیادہ مذمت کرنی چاہیے اور میں 9، 10 مئی کے واقعات کی مذمت کرتی ہوں۔

انہوں نے کہا کہ 12 روز تک میری گرفتاری، اغوا اور رہائی کے دوران میری صحت کے حوالے سے اور میری بیٹی ایمان مزاری کو جس صورتحال اور آزمائش سے گزرنا پڑا، میں نے جیل جاتے ہوئے اس کی وڈیو بھی دیکھی جب میں تیسری مرتبہ جیل جارہی تھی تو وہ اتنا رو رہی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں متحرک سیاست چھوڑ رہی ہوں، میں آج سے پی ٹی آئی یا کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ نہیں رہوں گی، میرے بچے، میری والدہ اور میری صحت میری ترجیح ہیں، اب میں ان پر زیادہ توجہ دوں گی۔

یاد رہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کو قومی احتساب بیورو نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیرا ملٹری رینجرز کی مدد سے القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتار کرلیا تھا جس کے بعد ملک میں احتجاج کیا گیا اور اس دوران توڑ پھوڑ اور پرتشدد واقعات بھی پیش آئے۔

احتجاج کے بعد شیریں مزاری سمیت پی ٹی آئی کے کم از کم 13 رہنماؤں کو مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت گرفتار کر لیا گیا تھا، انہیں عدالتوں کی جانب سے متعدد مرتبہ ضمانتیں ملیں لیکن ہر بار فوری طور پر دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔

شیریں مزاری کو سب سے پہلے 12 مئی کو دارالحکومت کی پولیس نے 9 مئی کے احتجاج کے بعد مینٹیننس آف پبلک آرڈر آرڈیننس کے تحت ان کے اسلام آباد میں واقع گھر سے گرفتار کیا تھا۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے 16 مئی کو ان کی رہائی کا حکم دیا اور ان کی نظر بندی کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دے دیا تاہم پولیس نے انہیں اڈیالہ جیل کے باہر سے دوبارہ گرفتار کر لیا۔

17 مئی کو اسلام آباد کی سیشن عدالت نے انہیں اسلحے سے متعلق کیس میں بری کر دیا اور انہیں رہا کرنے کا حکم دیا، بعد ازاں اسی روز انہیں تیسری مرتبہ پنجاب پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا۔

لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بینچ نے 22 مئی کو ان کی نظر بندی کا حکم نامہ کالعدم قرار دیتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیا تھا جس کے بعد گجرات پولیس نے انہیں چوتھی بار اڈیالہ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

آج پریس کانفرنس سے قبل گجرات کی عدالت کی جانب سے ان کی رہائی کے حکم کے چند لمحوں بعد ہی شیریں مزاری کو بغیر نمبر پلیٹ ویگو میں لے جایا گیا جس پر پی ٹی آئی نے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی پانچویں گرفتاری ہے۔

فیاض الحسن چوہان، جلیل شرقپوری، عبدالرزاق خان کی بھی راہیں جدا

پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ آج اعلان کر رہا ہوں کہ پی ٹی آئی سے میرا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن سیاست نہیں چھوڑ رہا ہوں۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ میں نے جیل خانہ جات، محکمہ ثقافت اور اطلاعات ڈی جی پی آر میں جو اصلاحات کی ہیں وہ کسی اور وزیر نے نہیں کیا۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ عمران خان نے یکم مئی کو یوم مزدور پر ریلی نکلوائی اور عمران خان فوجی آلات اور عمارتوں کی طرف لوگوں کو مظاہرہ کرنے کی تربیت دیتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ زوم میٹنگ کے اندر ترجمانوں کو متحرک کیا جاتا تھا کہ کیسے میڈیا میں فوج کے خلاف، باجوہ کے خلاف کیا کیا باتیں کرنی ہیں، ڈرنا نہیں خوف توڑنا ہے۔

فیاض الحسن چوہان نے کہا کہ ہر تیسرے دن زوم میٹنگ ہوتی تھی، 6 یا 7 بندے تھے جو عمران خان جیسے کہتے تھے کہ ’بوٹوں والوں کے خلاف یہ بولو، بوٹوں والوں کے خلاف یہ، فوجیوں کے خلاف یہ تو وہ ہاں میں ہاں ملاتے، جب بولنے کی کوشش کی زوم میٹنگ میں شٹ اَپ کال دی گئی اور بولنے نہیں دیا گیا‘۔

پریس کانفرنس میں انہوں نے کہا کہ اگست کے پہلے 3 دنوں میں ایک زوم میٹنگ میں ہو رہی تھی، میں نے سمجھانے کے لیے 75 دفعہ ہاتھ اٹھا کر بول کر کہا کہ خان صاحب ایک منٹ لیکن انہوں نے کہا کہ تم رہنے دو۔

فیاض الحسن چوہان نے عمران خان پر الزام عائد کرتےہوئے کہا کہ اپریل کے شروع میں چوہدری سرور آیا تو عمران خان نے مجھے فون کیا کہ اس کا جواب دینا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ چوہدری سرور کے ساتھ میرا بزرگی والا رشتہ تھا لیکن میں نے ایک لمحہ نہیں لگایا اور مال روڈ پر گورنر ہاؤس کے گیٹ پر پریس کانفرنس کرکے ایسی کی تیسی کردی۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد عون چوہدری آیا تو پھر عمران خان کو براہ راست فون آیا کہ اس کا کوئی اور جواب دو حالانکہ عون چوہدری میرا رشتہ دار تھا لیکن میں نے اس کی ایسی تیسی پھیر دی۔

فیاض الحسن نے کہا کہ 20 یا 25 دن گزرے تو علیم خان آیا جو میرا بڑا اچھا دوست تھا، پھر عمران خان کا فون آیا کہ نعیم الحق کو بھیج رہا ہوں، اس کے پاس دستاویزات ہیں اس کا جواب تم نے دینا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس بظاہر عہدہ تھا لیکن پارٹی کے اندر شہباز گل، فواد چوہدری، علی امین گنڈا پور، مراد سعید، عالیہ حمزہ، شیریں مزاری مقبول، مطلوب اور مقصود تھے کیونکہ وہ خان صاحب کو خوش کرنے کے لیے فوج کے حوالے سے ہر الٹی سیدھی، ترجمانوں کی زوم میٹنگ ہر دوسرے دن ہوتی تھی، جس میں بیٹھتا تھا لیکن ملنے اور اندر جانے کی کوئی اجازت نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ برے وقتوں میں کور کمیٹی کا رکن تھا اور اس پیغام کے بعد کور کمیٹی سے نکال دیا گیا لیکن نظم و ضبط کی وجہ سے پارٹی اور اپنی قیادت کے ساتھ وفا کا دامن نہیں چھوڑا اور چلتے رہے۔

فیاض چوہان کہنا تھا کہ کل جب میری ضمانت ہوئی تو گھر والوں سے پوچھا کہ عمران خان نے میرے حوالے سے بھی کوئی ٹوئٹ کیا تو کوئی نہیں تھا، میں ایک دفعہ دنگ رہ گیا کیونکہ میں نے اپنا گھر تباہ کردیا، گھر کے 4 لوگ گرفتار ہوئے۔

سابق صوبائی وزیر نے کہا کہ عمران خان کو شیریں مزاری، سینیٹر فلک ناز اور دیگر یاد آئے لیکن فیاض چوہان یاد نہیں آیا، جس کے ساتھ سب سے زیادہ تباہی ہوئی تھی مگر ایک لائن نہیں آئی۔

قبل ازیں پی ٹی آئی رہنما میاں جلیل شرقپوری نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم عمران خان کو 9 مئی کو ہونے والے تشدد کا ذمہ دار ٹھہرایا۔

اپنے ویڈیو پیغام میں میاں جلیل شرقپوری نے پی ٹی آئی سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں عمران خان یا پی ٹی آئی کے ساتھ بالکل بھی کام نہیں کر سکتا۔

انہوں نے اپنے دوستوں کو عمران خان، ان کے نظریے اور ان کے بیانیے کی حمایت نہ کرنے بھی کا مشورہ بھی دیا۔

دوسری جانب خانیوال سے تعلق رکھنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی عبدالرزاق خان نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا۔

پریس کانفرنس کرتے ہوئے عبدالرزاق خان نے کہا کہ میں پارٹی ٹکٹ پی ٹی آئی اور عمران خان کو واپس کرتا ہوں، میں پارٹی سے استعفیٰ دیتا ہوں اور میں فوج کے ساتھ کھڑا ہوں۔

واضح رہے کہ 2 روز قبل پی ٹی آئی کو ایک اور دھچکا اس وقت لگا تھا جب اس کے رکن قومی اسمبلی اور کراچی چیپٹر کے صدر آفتاب صدیقی نے پارٹی سربراہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں پھوٹنے والے فسادات کی مذمت کرتے ہوئے ’اختلاف رائے‘ پر پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

انہوں نے پی ٹی آئی کے اندر ایک حالیہ رجحان کے مطابق سلسلہ وار ٹوئٹس میں کہا کہ وہ پارلیمنٹ سے بھی استعفیٰ دیں گے، ان کے علاوہ پارٹی کے دو رکن قومی اسمبلی اور دو سندھ اسمبلی کے اراکین نے پارٹی اور پارلیمانی رکنیت چھوڑتے ہوئے 9 مئی کے فسادات سے خود کو الگ کرلیا تھا۔

آفتاب صدیقی کے اعلان کے ساتھ استعفے دینے کے حالیہ سلسلے میں پی ٹی آئی ایک ہفتے کے اندر اندر کراچی سے اپنے چار اراکین اسمبلی سے محروم ہوگئی تھی، اس سے قبل ایم این اے محمود بی مولوی اور ایم پی اے ڈاکٹر سنجے گنگوانی اور ڈاکٹر عمران علی شاہ نے بھی اسی بنیاد پر ایسے ہی اعلانات کیے تھے۔

ان کے علاوہ خیبرپختونخوا سے پی ٹی آئی کے دو رہنماؤں اجمل وزیر اور سید ذوالفقار علی شاہ نے بھی یہی دعویٰ کرتے ہوئے پارٹی چھوڑ دی کہ 9 مئی کے واقعات کے بعد ان کے لیے پارٹی میں رہنا ممکن نہیں رہا۔

ضلع لکی مروت سے تعلق رکھنے والے کے پی کے سابق وزیر ہشام انعام اللہ خان اور ضلع صوابی سے سابق ایم این اے انجینئر عثمان خان تراکئی نے بھی پی ٹی آئی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔

گزشتہ روز ہی تحریک انصاف ویسٹ پنجاب صدر کے رہنما فیض اللہ کموکا نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کردیا تھا، ان سے قبل سابق وفاقی وزیر عامر کیانی بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان کرچکے ہیں۔

لوگ پارٹی چھوڑ نہیں رہے، چھڑوائی جارہی ہے، عمران خان

سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے پارٹی رہنماؤں کی جانب سے علیحدگی پر ردعمل دیتے ہوئے آج کہا کہ لوگ پارٹی چھوڑ نہیں رہے، چھڑوائی جارہی ہے، کن پٹی پر بندوق رکھ کر پارٹی چھڑوا رہے ہیں۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت میں پیشی کے موقع پر دوران سماعت عمران خان نے کمرہ عدالت میں غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح کبھی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں، پارٹی اس طرح ختم ہوتی ہے جیسے پی ڈی ایم ختم ہو رہی ہے، جس طرح پی ڈی ایم کا ووٹ بینک ختم ہو رہا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں صرف کارکنان اور خواتین کے لیے پریشان ہوں، جس طرح کارکنان اور خواتین کے ساتھ سلوک کیا جارہا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں