اقوام متحدہ میں پاکستانی مندوب نے کہا ہے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں معمول کی جھوٹی عکاسی کو پیش کرنے کے لیے جی 20 کے کچھ ممالک کا بھارت کے ہاتھوں استحصال ہوتے دیکھ کر افسوس ہوا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق امریکی شہر نیویارک میں اقوام متحدہ کے سلامتی کونسل میں بحث کرتے ہوئے پاکستانی سفیر منیر اکرم نے سلامتی کونسل کو یاد دہانی کرائی کہ اس کی بنیادی ذمہ داری اقوام متحدہ کے منشور کے اصولوں کی روشنی میں تنازعات اور تصادم کو حل کرنا ہے۔

بحث میں شرکت کے دوران منیر اکرم نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں معمول کی جھوٹی عکاسی کو پیش کرنے کے لیے جی 20 کے کچھ ممالک کو بھارت کے ہاتھوں استعمال ہونے کی اجازت دینے پر افسوس ہوا ہے۔

خیال رہے کہ جی 20 کے 18ویں سالانہ اجلاس کی میزبانی بھارت کی طرف سے کی جا رہی ہے جس نے ایک اجلاس مقبوضہ جموں و کشمیر میں منعقد کیا۔

چین، سعودی عرب، مصر، ترکیہ اور انڈونیشیا نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا جو کہ کشمیر کو پاکستان اور بھارت کے درمیان متنازع علاقے کی طور پر دیکھتے ہیں، تاہم دیگر ممالک نے اجلاس میں شرکت کی۔

واضح رہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ کوئی بین الاقوامی اہم تقریب ایک متنازع علاقے میں منعقد ہوئی ہے جہاں اگست 2019 میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے اسے وفاقی زیرِ انتظام دو اکائیوں میں تقسیم کردیا تھا۔

پیر (23 مئی) کو اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے برائے اقلیتی مسائل نے یاد دہانی کرائی کہ بھارت، جی 20 کا اجلاس متنازع خطے میں منعقد کرکے کشمیری مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے جمہوری اور دیگر حقوق کی جارحانہ اور ظالمانہ خلاف ورزیوں کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہا ہے۔

ادھر نیور یارک کی کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (سی پی جے) نے کہا کہ بھارت کی طرف سے معمول کے حالات کی عکاسی کرنے کے باوجود بھی متنازع علاقے میں آزادی صحافت خطرے میں رہی ہے۔

پاکستانی مندوب نے سیکیورٹی کونسل میں بحث کو بڑھاتے ہوئے نشاندہی کی کہ متنازع علاقے میں معمول کو برقرار رکھنا ممکن نہیں ہے۔

پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ 25 کروڑ لوگ ہر روز بغیر خوراک کے سوتے ہیں جن میں سے 70 فیصد لوگ ان علاقوں میں ہیں جہاں مسلح تصادم چل رہے ہیں اور ان میں سے بھی اکثریت بچوں کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ بھوک اور تصادم کے درمیان یہ گٹھ جوڑ اچھی طرح سے قائم ہے اور یہ بہت سے حالیہ اور پرانے تنازعات کے حالات میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ مسلح تنازعات کو روکنے، حل کرنے اور ختم کرنے کی ضرورت کبھی واضح نہیں رہی، سلامتی کونسل پرانے تنازعات میں نئے کشیدہ حالات کو شامل کرتی جارہی ہے جس سے مسائل جڑ گئے ہیں اور بھوک میں اضافہ ہو رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ تنازعات کا یہ پھیلاؤ غربت اور محرومی کا سبب بنتا ہے جو کہ تقریباً ایک ارب افراد کو گھیرے ہوئے ہے، اور یہ زیادہ تر عالمی جنوب میں ہوتا ہے۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ سلامتی کونسل کی بنیادی ذمہ داری امن، سلامتی کو فروغ دینے، برقرار رکھنے اور تنازعات اور تصادم کو حل کرنے کی ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں امن اور استحکام قائم کرنے کی کنجی سیکیورٹی کونسل کی متعلقہ قراردادوں کی روشنی میں مقبوضہ جموں اور کشمیر تنازع کا پرامن حل ہے۔

پاکستانی مندوب منیر اکرم نے کہا کہ کشمیریوں پر بھوک اور احساس محرومی 9 لاکھ بھارتی قابض فوجیوں کی طرف سے جارحانہ کارروائیوں، انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں، ان کی املاک اور ذریعہ معاش پر قبضے سے نافذ کی گئی ہے۔

انہوں نے اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے کی 15 مئی کی رپورٹ کا حوالہ بھی دیا جس میں بھارت کی طرف سے کشمیر میں فوجی قبضے کو معمول بنانے کی کوشش پر خبردار کیا گیا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ اس بات پر زور دیتی ہے کہ جموں و کشمیر میں جو حالات ہیں ان کی مذمت اور تنقید کی جائے نہ کہ اس رپورٹ کو پھینک دیا جائے، علاوہ ازیں پاکستان نے بین الاقوامی کمیونٹی کو افغانستان کی 40 سالہ جنگ کے نتائج کی بھی یاد دہانی کرائی۔

پاکستانی مندوب نے کہا کہ افغانستان کی تقریباً 95 فیصد آبادی انتہائی غربت میں ہے، یہاں تک کہ جب ہم خواتین کے حقوق کو یقینی بنانے، دنیا افغان عوام کو طویل عرصے تک غربت میں دھکیلنے کی اجازت نہیں دے سکتی۔

تبصرے (0) بند ہیں