حکومت کا ’غیرجانبدارانہ فیصلوں‘ کیلئے آئینی عدالت کے قیام پر غور

اپ ڈیٹ 30 مئ 2023
عرفان قادر نے کہا کہ بحرانی کیفیت ختم کرنے کے لیے ججز کی تعیناتیوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی
عرفان قادر نے کہا کہ بحرانی کیفیت ختم کرنے کے لیے ججز کی تعیناتیوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کی زیر قیادت حکومت آئین کی غیر جانبدارانہ تشریح کے لیے آئینی عدالت کے قیام پر غور کر رہی ہے جو کہ میثاقِ جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا سمجھا جاتا ہے جس پر ماضی میں سیاسی حریف مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی نے دستخط کیے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس خیال کا اظہار وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات و احتساب عرفان قادر نے گزشتہ روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے ملک میں کچھ عرصے سے ’جوڈیشلائزیشن آف پالیٹکس‘ ہو رہی ہے جس میں کس طرح سے بینچز تشکیل دیے جاتے ہیں اور ججز ملکی سیاست کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں، اس طرح کی تقسیم اور مبینہ متعصبانہ فیصلوں کا حل آئینی عدالت کا قیام ہے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ کیا آپ سب کو نہیں لگتا کہ آئینی عدالت کے قیام کا وقت آگیا ہے، یہ عدالت سابق اور غیر متنازع چیف جسٹس، اعلیٰ عدالتوں کے ججز اور قانونی معاملات سے آگاہی رکھنے والے پارلیمنٹیرینز پر مشتمل ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت لگا کر پوری حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور آرٹیکل 58 (2) (بی) بھی ختم ہو چکا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کو یہ کہہ کر نکالا گیا کہ انہوں نے عدالت کی توہین کی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کا یہ منصب نہیں کہ وہ سپریم کورٹ کے کہنے پر سپریم کورٹ کے پیغامات باہر کی دنیا کو بتائے اور جو منصب وزیراعظم کا نہیں اس پر سپریم کورٹ کی طرف سے احکامات دینا خلافِ آئین ہے اور اگر یہ وزیراعظم کا منصب تھا تو آئین میں لکھا ہوا ہے کہ وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ نہیں ہیں۔

معاون خصوصی نے کہا کہ پاناما کیس کا عنوان عمران احمد خان نیازی بنام میاں محمد نواز شریف تھا اور جب اس پر فیصلہ ہوا تو نواز شریف کے خلاف مقدمات بننا شروع ہوگئے، وہ پابند سلاسل بن گئے اور پھر عمران خان وزیر اعظم بن گئے۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت بھی پانچ ججز نظر آئے جن میں سے ایک جج آج بھی سپریم کورٹ کا حصہ ہیں، مزید کہا کہ پاکستان میں دو حکومتیں عدالتوں نے گرائیں جن میں ایک نواز شریف کی حکومت اور دوسری یوسف رضا گیلانی کی حکومت شامل تھی۔

عرفان قادر نے کہا کہ نواز شریف کو نااہل کرکے بتایا گیا کہ یہ نااہلی تاحیات ہوگی جبکہ آئین میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ تاحیات نااہلی ہوگی، جب وہ نااہل ہوگئے تو پھر انہیں پارٹی کی قیادت سے ہٹایا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ایک درخواست آئی کہ انتخابات کی تاریخ دی جائے لیکن آئین میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ انتخابات کی تاریخ سپریم کورٹ دے گی، بلکہ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ صدر یا گورنر بھی تاریخ نہیں دے سکتے۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں 9 رکنی بینچ تشکیل دیا گیا جس میں سے دو ججز نے خود کو الگ کرلیا جبکہ 7 میں سے چار ججز نے کہا کہ وہ درخواست قابل سماعت نہیں تھی، اگر یہ بحران تھا تو چیف جسٹس کو چاہیے تھا کہ وہ اس کو حل کریں لیکن وہ حکومت کو نوٹسز دینے کے پیچھے پڑ گئے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ چیف جسٹس نے پھر من پسند بینچ تشکیل دے دیا اور فیصلہ دیا کہ انتخابات 14 مئی کو ہوں گے، اب 14 مئی گزر گئی تو اس پر عملدرآمد کا مسئلہ ہوگیا جس کے بعد چیف جسٹس نے ایک تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نظرثانی درخواست نہیں لائی گئی، ہم چیزوں کو دیکھ سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت عدلیہ میں بھی تفریق ہے، حکومت یا پارلیمان عدلیہ کے خلاف نہیں ہیں بلکہ حکومت چاہتی ہے کہ عدلیہ اور پارلیمان مضبوط ہوں۔

عرفان قادر نے کہا کہ موجودہ حکومت عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، اگر عدلیہ میں کوئی تفریق ہے تو چیف جسٹس کو چاہیے کہ وہ اس تفریق کو ختم کریں تاکہ عدالتوں کی طرف سے ملک میں پیدا کی گئی سیاسی بحران کی کیفیت ختم ہو اور عدالتیں اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر کام کریں۔

انہوں نے کہا کہ عدلیہ کو انتظامی معاملات میں مداخلت کرنے کی ضرورت نہیں، نہ ان کو ڈیم بنانے کی ضرورت ہے اور نہ ہی ہسپتال بنانے کی بلکہ ان کا کام ہے کہ جو 50 ہزار مقدمات زیر التوا ہیں ان کو حل کرے۔

معاون خصوصی نے کہا کہ بحرانی کیفیت ختم کرنے کے لیے ججز کی تعیناتیوں پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے، کسی بھی جج کو ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ تعینات کرنے سے قبل ان کی سنیارٹی اور کارکردگی رپورٹ دیکھی جائے۔

انہوں نے کہا کہ ہماری خواہش ہے کہ عدلیہ کی ساکھ بحال رہے اور تمام ججز مل کر اپنے معاملات حل کریں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں