افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ

اپ ڈیٹ 01 جون 2023
پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 73 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا —فوٹو: اے ایف پی
پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 73 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا —فوٹو: اے ایف پی

افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے ابتدائی 21 ماہ کے دوران ان کے اقتدار سے پہلے کی شرح کے مقابلے میں پاکستان میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں 73 فیصد کا غیر معمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق 15 اگست 2021 سے جب طالبان نے کابل پر قبضہ کیا تو مجموعی طور پر پاکستان کے اندر دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں اگست 2021 سے اپریل 2023 (21 ماہ) کے دوران حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد میں بھی 138 فیصد اضافہ ہوا۔

یہ پاک انسٹی ٹیوٹ فار پیس اسٹڈیز کی جانب سے ’پاکستان کا افغان مؤقف اور پالیسی کے اختیارات‘ کے عنوان سے پیش کردہ پالیسی پر مبنی ایک رپورٹ کے اہم نکات تھے۔

رپورٹ میں پالیسی سازوں کے لیے اہم سفارشات شامل ہیں جو وسیع پیمانے پر نگرانی، تحقیق اور تجزیوں کا حتمی نتیجہ ہے اور تھنک ٹینک نے جولائی 2021 سے 8 ماہرین سے مشاورت کی ہے۔

سلامتی اور افغان امور کے ماہرین، ماہرین تعلیم، قانون ساز، صحافی، طلبہ اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سمیت دیگر نے رپورٹ پیش کرنے کی تقریب میں شرکت کی، ماہرین نے اپنی تقاریر کے بعد تقریب کے اختتام پر سوال و جواب کا سیشن بھی منعقد کیا۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان نے دہشت گردی کے حوالے سے افغان صورت حال کے واضح اثرات کا مشاہدہ کیا ہے، جہاں ان 21 ماہ کے دوران حملوں کی تعداد میں بالترتیب 92 فیصد اور 81 فیصد اضافہ ہوا ہے۔

تاہم طالبان کے قبضے کے بعد سے پنجاب، سندھ اور اسلام آباد میں دہشت گرد حملوں کی تعداد میں اگست 2021 سے پہلے کے مقابلے ان 21 ماہ میں نسبتاً کمی آئی ہے۔

رپورٹ میں متنبہ کیا گیا کہ دہشت گردی کے یہ ابھرتے ہوئے رجحانات خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں میں طالبان عسکریت پسندی، بلوچستان میں بلوچ قوم پرست بغاوت، سندھ میں نسلی قوم پرستی کے تشدد کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی کے حوالے سے پاکستان کے مسلسل سیکیورٹی چیلنجز میں اضافہ کریں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’طویل عرصے تک، عدم تحفظ، عسکریت پسندی اور تشدد کا ایسا ماحول سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے بھی سنگین خطرات کا باعث بن سکتا ہے۔‘

اسلام آباد میں رائل ناروے ایمبیسی کی ڈپٹی ہیڈ آف مشن ڈاکٹر ماہ نور خان نے کہا کہ ناروے دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جنہوں نے ہمیشہ (افغان) طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تنازعات کے حل اور مفاہمت کو فروغ دینا ناروے کی خارجہ پالیسی کا مرکزی پہلو ہے۔

اسلام آباد کی قائداعظم یونیورسٹی میں سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر ڈاکٹر ظفر نواز جسپال نے کہا کہ معاشرے کے تمام طبقات کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پاکستان کی پانچ دہائیوں سے زائد طویل افغان پالیسی پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

دفاعی اور تزویراتی امور کے تجزیہ کار ریٹائرڈ میجر جنرل انعام الحق کا خیال تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور سرحد پر باڑ لگانا پاک۔افغان تعلقات میں دو ’متغیرات‘ کے ساتھ ساتھ رکاوٹیں ہیں۔

سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے اپنے اختتامی کلمات میں کہا کہ افغانستان میں عسکریت پسند تنظیموں کی موجودگی ایک نئے تنازع کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کی دوسری جنگ کو ہوا دے سکتی ہے جس کے خطے کے لیے سنگین نتائج ہوں گے۔

انہوں نے پاکستان پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے حوالے سے اپنی پالیسی تبدیل کرے، گزشتہ پالیسی میں خامی تھی جو اس کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں