پاناما لیکس میں نامزد 436 افراد کے خلاف درخواست سپریم کورٹ میں سماعت کیلئے مقرر

03 جون 2023
درخواست پر جسٹس سردار طارق مسعود کی زیرسربراہی 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
درخواست پر جسٹس سردار طارق مسعود کی زیرسربراہی 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا—فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

پاناما پیپرز کے انکشافات سے پاکستان کی سیاست میں ہلچل کے تقریباً 8 برس بعد یہ معاملہ ایک بار پھر سرخیوں میں ہے، سپریم کورٹ میں جماعت اسلامی کی ایک درخواست پر 9 جون کو سماعت متوقع ہے جس میں اُن 436 افراد کے خلاف ہدایت جاری کرنے کی استدعا کی گئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر آف شور کمپنیوں میں دولت چھپائی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق درخواست پر جسٹس سردار طارق مسعود کی زیرسربراہی 2 رکنی بینچ سماعت کرے گا جس میں جسٹس امین الدین خان بھی شامل ہیں۔

خیال رہے کہ پاناما لیک کیس کا حتمی فیصلہ جاری ہونا تاحال باقی ہے، 3 نومبر 2017 کو جماعت اسلامی نے ایک درخواست کے ذریعے عدالت کو امیر جماعت اسلامی سراج الحق کی جانب سے اگست 2016 میں دائر کی گئی زیر التوا درخواست کی یاد دہانی کروائی تھی۔

تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ کی زیرسربراہی 5 رکنی بینچ، جو اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کے خلاف آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے کی درخواستوں کی سماعت کر رہا تھا، نے اس کیس کو وسیع البنیاد ہونے کے سبب علیحدہ کر دیا تھا، تاہم عدالت نے جماعت اسلامی کو یقین دہانی کروائی تھی کہ اس درخواست پر کسی مناسب وقت پر سماعت کی جائے گی۔

سپریم کورٹ رولز 1980 کے آرڈر 33 رول 6 کے تحت سراج الحق کی جانب سے ایڈووکیٹ محمد اشتیاق احمد راجا کے ذریعے دائر درخواست میں درخواست گزار نے مؤقف اختیار کیا کہ عوام کی دولت کے تحفظ کے لیے وسیع تر قومی مفاد میں عدالت کی توجہ طلب کی جا رہی ہے، کیس کی سماعت میں تاخیر سے آف شور کمپنیوں کے مالکان کو اپنی آمدنی اور دولت کے ذرائع چھپانے میں مزید مدد ملے گی۔

سراج الحق نے اپنی اصل درخواست میں عدالت سے استدعا کی تھی کہ وہ پانچوں جواب دہندگان (وفاقی حکومت، سیکرٹری قانون و انصاف، سیکریٹری خزانہ، کابینہ ڈویژن اور نیب) کے ذریعے ان تمام مجرموں کو گرفتار کرنے کا حکم دے جنہوں نے چوری کا پیسہ آف شور کمپنیوں میں لگایا اور ان کمپنیوں میں غیرقانونی طور پر منتقل کیا جانے والا عوام کا پیسہ واپس ملک میں لایا جائے۔

جماعت اسلامی نے مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے پناہ قربانیاں دے رہا ہے لیکن سرکاری افسران، قانونی اداروں کے عہدیداران اور شہری بھی غیر قانونی اور کرپٹ ذرائع سے آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کرنے میں مصروف ہیں، اس طرح ریاست کے علم میں لائے بغیر بڑے پیمانے پر منی لانڈرنگ کی گئی یا غیر قانونی طور پر کچھ آف شور کمپنیوں میں یہ رقم منتقل کی گئی، جس سے قوم اور قومی خزانے کو بھاری مالی نقصان پہنچا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا کہ آف شور کمپنیوں میں یہ سرمایہ کاری درحقیقت بدعنوانی اور غیر قانونی طریقوں سے عوام کا پیسہ لوٹ کر ہوئی ہے، سرکاری عہدیداران کی بڑی تعداد آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کر رہی ہے اور متعلقہ حکام کو جمع کرائے گئے اثاثوں کے گوشواروں میں حقائق چھپا رہی ہے۔

لہٰذا درخواست میں اس بات پر زور دیا گیا کہ ایسے تمام سرکاری عہدوں کے حامل افراد کو ان کے عہدوں سے نااہل قرار دیا جانا چاہیے اور انہیں سزا ملنی چاہیے، تاہم، درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ حکومتی اداروں کی جانب سے غفلت اور غیرفعالیت کی وجہ سے احتساب کے عمل کو شفاف طریقے سے نہیں چلایا جا رہا، نیب کے تحت قائم موجودہ احتسابی نظام ہر سطح پر نافذ العمل نہیں نظر آتا۔

درخواست میں استدعا کی گئی کہ آف شور کمپنیوں میں سرمایہ کاری کے لیے قومی دولت کی غیرقانونی منتقلی کو قومی احتساب آرڈیننس کے سیکشن 9 کے تحت جرم قرار دیا جائے اور عدالت ان تمام افراد کے خلاف ملک کے متعلقہ قوانین کے تحت انکوائری کمیشن کے ذریعے مقدمہ چلانے کا حکم دے جنہوں نے بدعنوانی کے ذریعے یہ سرمایہ کاری کی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں