ہانگ کانگ: تیانان مین کریک ڈاؤن کی 34ویں برسی کے موقع پر متعدد افراد زیر حراست

04 جون 2023
ہانگ کانگ میں پابندیوں کے باعث تقریب منعقد نہ کی جاسکی —فوٹو:رائٹرز
ہانگ کانگ میں پابندیوں کے باعث تقریب منعقد نہ کی جاسکی —فوٹو:رائٹرز

ہانگ کانگ پولیس نے 1989 کے تیانان مین اسکوائر کریک ڈاؤن کی 34 ویں برسی کے موقع پر سخت سیکیورٹی کے دوران متعدد لوگوں کی تلاشی لی اور کئی کو حراست میں لیا جب کہ ان میں سے چار افراد کو ’غداری‘ کے ارادے کے الزامات کے تحت گرفتار کیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق ہانگ کانگ میں پابندیوں کے باعث یادگاری تقریب منعقد نہ کی جاسکی جب کہ ماضی میں چینی فوجیوں کی جانب سے جمہوریت کے حامی مظاہرین پر خونی کریک ڈاؤن کی برسی کے موقع پر یہ سب سے بڑی تقریب ہوا کرتی تھی۔

تائی پے، لندن، نیویارک اور برلن جیسے شہروں میں 4 جون کی اس یاد کو تازہ رکھنے کے لیے تقریبات منعقد کی گئیں۔

وکٹوریہ پارک کے قریب جہاں سالانہ تقریب منعقد کی جاتی تھی، وہاں سیکڑوں پولیس اہلکاروں نے لوگوں کو روکا اور سرچ آپریشنز کیے جب کہ اس موقع بکتر بند گاڑیاں اور پولیس وین بھی موجود تھیں۔

51 سالہ شہری نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت چاہتی ہے کہ آپ سب کچھ بھول جائیں لیکن آپ بھول نہیں سکتے، چین تمام تاریخ کو مٹانا چاہتا ہے، ہمیں دوسروں کو وہ سب بتانے کے لیے اپنے جسم اور الفاظ کو استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔

ہانگ کانگ سے تعلق رکھنے والے سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی پولیس کارروائی شہر میں اختلاف رائے کو کچلنے کے لیے چین کی بڑی مہم کا حصہ ہے جب کہ اس نے 50 سال تک ’ایک ملک، دو نظام‘ کے ماڈل کے تحت آزادی جاری رکھنے کا وعدہ کیا جب برطانیہ نے اسے 1997 میں واپس کیا تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق رواں سال نمایاں طور پر ہانگ کانگ بھر میں سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے، اینٹی رائٹس اور انسداد دہشت گردی کے افسران سمیت 6 ہزار تک پولیس اہلکار تعینات کیے گئے۔

سینئر حکام نے لوگوں کو قانون کی پاسداری کرنے کی تنبیہ کی لیکن یہ واضح کرنے سے انکار کر دیا کہ آیا کس طرح سے ایسی یادگاری سرگرمیاں قومی سلامتی کے اس قانون کے تحت غیر قانونی ہیں جو چین نے 2020 میں ہانگ کانگ میں بعض اوقات پرتشدد ہوجانے والے جمہوریت نواز مظاہروں کے بعد نافذ کیا تھا۔

ایک بیان میں پولیس نے کہا کہ کچھ لوگوں کو بغاوت کے ارادے اور ’امن و امان کی خلاف ورزی‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔

سانحے کے متاثرین کے رشتہ داروں کے ایک گروپ ’تیانان مین مدرز‘ نے کہا کہ یہ غم کبھی نہیں بھولے۔

گروپ نے نیویارک میں قائم انسانی حقوق کے نگران ادارے کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا کہ ہلاک ہونے والو کے لواحقین کے غم کو 34 سال گزر چکے لیکن اس رات میں اپنے پیاروں کو کھونے کے درد نے ہمیں آج تک دکھی اوربے سکون کر رکھا ہے۔

تیانان مین اسکوائر کریک ڈاؤن جہاں فوجیوں نے جمہوریت کے حامی مظاہرین پر گولیاں چلائیں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ہزاروں نہیں تو کم از کم سیکڑوں لوگ ہلاک ہوئے، چین میں اس واقعہ کا کسی طرح بھی ذکر کرنا ممنوع ہے اور اس موضوع کو بہت زیادہ سنسرشپ کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔

جمہوری حکومت والے تائیوان میں جو کہ چینی بولنے والی دنیا کا آخری حصہ ہے وجہاں برسی کی تقریبات کو آزادانہ طور پر منایا جا سکتا ہے، وہاں سیکڑوں لوگوں نے تائپے لبرٹی اسکوائر پر جہاں ’ستون شرم ’ مجسمہ آویزاں کیا گیا تھا یادگاری تقریب میں شرکت کی۔

سڈنی جو کہ شمالی امریکا، یورپ اور ایشیا کے 30 سے زائد مقامات میں سے ایک تھا جہاں یادگاری تقریبات منعقد کی گئیں، درجنوں مظاہرین نے ریلی نکالی، ”فری ہانگ کانگ“ کے نعرے لگائے، انہوں نے 2014 سے جمہوریت نواز احتجاج کی علامت پیلی چھتری اور پلے کارڈزاٹھائے ہوئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں