سعودی عرب کا اوپیک کے ساتھ معاہدے کے تحت جولائی میں تیل پیداوار مزید کم کرنے کا فیصلہ

05 جون 2023
اوپیک پلس پہلے ہی  20 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کی کٹوتی کر چکا ہے—فوٹو:رائٹرز
اوپیک پلس پہلے ہی 20 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کی کٹوتی کر چکا ہے—فوٹو:رائٹرز

سعودی عرب جولائی میں اپنی تیل کی پیداوار کو محدود کرنے کے اوپیک پلس ممالک کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے تحت اپنی پیداوار میں مزید کمی کرے گا جب کہ گروپ کو تیل کی قیمتوں میں گراوٹ اور رسد میں زیادتی کا سامنا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی خبر کے مطابق سعودی وزیر توانائی شہزادہ عبدالعزیز نے کہا کہ ضرورت پڑنے پر ریاض کی جانب سے 10 لاکھ بیرل یومیہ (بی پی ڈی) کٹوتی کو جولائی سے آگے بڑھایا جا سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ یہ سعودی لالی پاپ ہے۔

پیٹرولیم برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم اور روس کی قیادت میں اتحادیوں کے گروپ کو اوپیک پلس کہا جاتاہے، وہ سات گھنٹے کے مذاکرات اور بات چیت کے بعد پیداواری پالیسی سے متعلق معاہدے پر پہنچا اور 2024 سے مجموعی پیداواری اہداف کو مزید 14 لاکھ بی پی ڈی تک کم کرنے کا فیصلہ کیا۔

تاہم اس میں سے بہت سی کمی حقیقی نہیں ہوگی جب کہ گروپ نے روس، نائیجیریا اور انگولا کے اہداف کو ان کی اصل پیداوار کی سطح کے مطابق لانے کے لیے کم کر دیا ہے، اس کے برعکس متحدہ عرب امارات کو پیداوار بڑھانے کی اجازت دی گئی ہے۔

اوپیک پلس دنیا کا تقریباً 40 فیصد خام تیل پمپ کرتا ہے، یعنی اس کے پالیسی سے متعلق فیصلے تیل کی قیمتوں کو واضح طور پر متاثر کر سکتے ہیں۔

اوپیک پلس پہلے ہی 20 لاکھ بیرل یومیہ پیداوار کی کٹوتی کر چکا ہے جس پر گزشتہ سال اتفاق کیا گیا تھا جو کہ عالمی طلب کا 2 فیصد بنتا ہے۔

اپریل میں، اس نے16 لاکھ بیرول کی حیرت انگیز رضاکارانہ کٹوتی پر بھی اتفاق کیا تھا جو مئی 2023 کے آخر تک نافذ العمل رہی تھی۔

سعودی عرب نے اتوار کے روز کہا کہ وہ 5 لاکھ بیرول کی رضاکارانہ کٹوتیوں کے اپنے حصے کو 2024 تک بڑھا دے گا، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا جولائی میں اعلان کردہ 10 لاکھ بیرل کی کمی میں ہی یہ 5 لاکھ بیرل کی کمی میں شامل ہے یا یہ اس کے علاوہ ہوگی۔

اپریل کے اعلان کے باعث تیل کی قیمتوں میں تقریباً 9 ڈالر فی بیرل کا اضافہ ہو گیا تھا جس کے بعد قیمتیں 87 ڈالر سے اوپر چلی گئی تھیں لیکن عالمی اقتصادی صورتحال اور طلب کے خدشات کے دباؤ کی وجہ وہ تیزی سے پھر کم ہوگئیں، جمعہ کے روز عالمی بینچ مارک برینٹ 76 ڈالر پر طے ہوا۔

مغربی ممالک نے اوپیک پر تیل کی قیمتوں میں ہیرا پھیری اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کے ذریعے عالمی معیشت کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا ہے، مغرب نے یوکرین پر ماسکو کے حملے کے بعد مغربی ممالک کی پابندیوں کے باوجود اوپیک ممالک پر روس کا ساتھ دینے کا الزام بھی لگایا ہے۔

اس کے جواب میں اوپیک کے اندرونی ذرائع نے کہا کہ گزشتہ دہائی کے دوران مغربی ممالک کی کرنسی پرنٹنگ نے افراط زر کو ہوا دی اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کو اپنی اہم برآمدات کی قدر کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرنے پر مجبور کیا۔

چین اور بھارت جیسے ایشیائی ممالک نے روسی تیل کی برآمدات کا سب سے بڑا حصہ خریدا اور روس کے خلاف مغربی ممالک کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں میں اس کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں