جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا، مولانا فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 05 جون 2023
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ کچھ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ کچھ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں — فوٹو: ڈان نیوز

جمعیت علمائے اسلام (ف) اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ 9 مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا گیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا۔

لاہور میں ایاز صادق کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ عدلیہ کے جانبداری کا مظاہرہ کرنے پر ہم عوامی عدالت میں گئے، ہم نے اسلام آباد میں ریلی نکالی، بڑی تعداد میں لوگ آئے اور عدلیہ کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا، ہم عدلیہ کے خیرخواہ ہیں، بدخواہ نہیں ہیں لیکن جمہوریت میں یہی ہوتا ہے کہ ملک کے کسی ادارے کی کارکردگی پر عوام کو اعتراض ہوتا ہے تو وہ اپنی رائے دیتے ہیں جس کا احترام کیا جانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے 9 مئی کے احتجاج کے دوران ریاستی اداروں پر حملہ کیا، جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس پر حملہ ہوگا تو آرمی ایکٹ حرکت میں آئے گا، یہ ایک نئی صورتحال سے جس کو ماضی کے کسی واقعے سے نہیں جوڑا جاسکتا، آرمی ایکٹ باقاعدہ قانون کا حصہ ہے اور اس کے خلاف اپیل بھی کی جاسکتی ہے۔

الیکشن کی تاریخ سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ اتفاق رائے سے متفقہ فیصلہ کیا ہے، الیکشن کے حوالے سے بھی ہم متفقہ فیصلہ ہی کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم انتخابی اتحاد نہیں ہے، انتخابی اتحاد میں ہم زیادہ سے زیادہ علاقائی اور ضلعی سطح پر اتحاد کر سکتے ہیں، ہمارا ایسا تعلق قائم ہوچکا ہے کہ تمام صوبوں میں انتخابی ایڈجسٹمنٹ ہمارے لیے آسان ہوگی لیکن بہرحال ہر پارٹی کا اپنا اپنا منشور ہے۔

مہنگائی سے متعلق سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میں نے عمران خان کے دورِ حکومت میں ہی یہ بات کی تھی کہ ملکی معیشت اس حد تک گر چکی ہے کہ نئی حکومت کے لیے اسے اٹھانا ممکن نہ ہوگا، موجودہ حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے بعد میری تجویز یہی تھی کہ ہمیں فوراً الیکشن کی جانب جانا چاہیے لیکن ساتھیوں کا یہ خیال تھا کہ ہم نے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں تو ذمہ داری کو ذمہ داری سمجھنا چاہیے۔

سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہا کہ اب عوام کو بھی یہ سمجھ آگیا ہے کہ ملک کو اس دلدل میں کس نے دھکیلا اور اس سے نکلنے میں کتنی دقت سامنے آرہی ہے، ہمارے اندازے درست ثابت ہو رہے ہیں، موجودہ صورتحال میں کچھ امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے حالات بہتری کی جانب جارہے ہیں۔

عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی پیشکش سے متعلق سوال کے جواب میں مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہم پہلے بھی مذاکرات نہیں کر رہے تھے اور اب بھی نہیں کریں گے، جو میں کہہ رہا ہوں وہی پی ڈی ایم کا مؤقف ہے۔

پی ٹی آئی پر پابندی سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، اگر عدالت یہ سمجھتی ہے کہ پی ٹی آئی پر پابندی ہونی چاہیے تو خس کم جہاں پاک۔

شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن کی ملاقات

قبل ازیں وزیرِ اعظم شہباز شریف سے صدر جمعیت علمائے اسلام (ف) مولانا فضل الرحمٰن نے ملاقات کی جس کے دوران آئندہ بجٹ پر مشاورت اور ملک کی سیاسی صورتحال پر گفتگو ہوئی۔

’پی ٹی وی نیوز‘ کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف سے مولانا فضل الرحمٰن اور وفاقی وزیر مواصلات مولانا اسعد محمود کی ملاقات ہوئی۔

ٹوئٹ کے مطابق ملاقات کے دوران بجٹ 24-2023 پر مشاورت ہوئی اور موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر بھی تفصیلی گفتگو ہوئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے اعلان کیا تھاکہ مالی سال 2024 کا وفاقی بجٹ 9 جون کو پیش کیا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ آئی ایم ایف پروگرام ملے یا نہیں، پاکستان کسی بھی غیر ملکی ادائیگی کے حوالے سے ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کی تمام پیشگی شرائط پوری کر دی ہیں اور اب یہ قرض دینے والے پر منحصر ہے کہ وہ معاہدے پر دستخط کرتا ہے یا نہیں، اس مرحلے پر مزید سخت فیصلے نہیں کیے جا سکتے۔

انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ چین 2.4 ارب ڈالر کے قرض کو مزید رول اوور کردے گا۔

اسحٰق ڈار نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف ڈیل میں تاخیر کو ڈیفالٹ سے نہیں جوڑا جانا چاہیے، آئی ایم ایف پروگرام ہو یا کوئی پروگرام نہ ہو، پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ فنڈ کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدہ بہت پہلے طے پا جانا چاہیے تھا کیونکہ 9 فروری کو بات چیت ہوئی تھی اور اس کے فوراً بعد تمام پیشگی مطالبات پورے کر دیے گئے تھے حالانکہ حکومت نے بھاری سیاسی قیمت ادا کرتے ہوئے تمام سخت فیصلے لیے تھے۔

رواں ماہ 3 جون کو وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے یقین دہانی کروائی تھی کہ ملک دیوالیہ نہیں ہوگا، آثار بتا رہے ہیں کہ معاشی تنزلی کا رجحان تھم چکا ہے، اب معاملات کو بہتری کی جانب لے جانا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ 9 جون کو ہمیں بجٹ پیش کرنا ہے، آپ سب کو یہ ذہن میں رکھنا ہے کہ پاکستان کے حالات ایک پیچیدہ دور سے گزر رہے ہیں، ہمیں اس صورتحال کا مل کر مقابلہ کرنا ہے اور ہم مقابلہ کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں