نئی درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ آڈیو لیکس کمیشن کیس کی سماعت آج کرے گی

اپ ڈیٹ 06 جون 2023
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔—فائل/فوٹو: ڈان
حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔—فائل/فوٹو: ڈان

سپریم کورٹ نے آج آڈیو لیکس کی تحقیقات کے لیے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں کمیشن کی تشکیل کے خلاف مختلف درخواستوں پرسماعت کرے گی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایسے میں درخواست گزاروں میں سے ایک عابد زبیری نے مختلف ہائی کورٹس کے متعدد احکامات کو پیش کرتے ہوئے درخواست کی کہ موجودہ کیس کے ’مناسب فیصلے‘ کے لیے ان دستاویزات پر غور کیا جائے۔

چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی بینچ آڈیو لیکس کمیشن کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی چار درخواستوں پر سماعت کرے گا۔

26 مئی کو پانچ ججوں کے بینچ نے مبینہ آڈیو لیکس کی حقیقت کی تحقیقات کے لیے حکومت کی جانب سے مقرر کردہ تین ججوں کے کمیشن کی کارروائی کو روک دیا تھا۔

اس کے بعد 27 مئی کو آڈیو لیک کمیشن نے سپریم کورٹ کی سماعت کا نتیجہ آنے تک اپنی کارروائی ملتوی کر دی تھی۔

درخواستیں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کے صدر عابد زبیری، اس کے سیکریٹری مقتدر اختر شبیر، پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اور ایڈووکیٹ ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھیں، جس میں عدالت سے آڈیو کمیشن کی تشکیل کو غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔

نئی درخواست میں عابد زبیری نے اپنے وکیل شعیب شاہین کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کا 22 دسمبر 2021 کا ایک حکم نامہ پیش کیا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ کسی نیوز چینل کو ایسی کوئی آڈیو نشر یا نشر کرنے کا حق نہیں جسے چینل یا صحافی نے خود آڈیو یا ویڈیو کلپ کے موضوع کی پیشگی اجازت کے بغیر براہ راست ریکارڈ نہیں کیا ہو اور اس ’جاسوس معلومات‘ کو خبر نہیں سمجھا جانا چاہیے، خاص طور پر جب یہ رازداری کے حق کو متاثر کرتی ہو۔

اسی طرح ایک اور دستاویز سپریم کورٹ کا 5 اپریل 2022 کو دیا گیا فیصلہ تھا، جس میں اسے ریکارڈ پر لایا گیا تھا کہ عدالت عظمیٰ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے مذکورہ بالا حکم کے خلاف اپیل پر غور کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

اس کے علاوہ درخواست گزار نے 31 مئی 2023 کو دیا گیا اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اور حکم بھی پیش کیا، جس میں عدالت نے آڈیو لیکس کے آڈٹ، انکوائری اور تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی تشکیل دی گئی ایک خصوصی کمیٹی کے جاری کردہ سمن کو معطل کر دیا تھا جس میں مبینہ طور پر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے نجم ثاقب ملوث تھے۔

حکم نامے میں جسٹس بابر ستار نے بیرسٹر اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، میاں رضا ربانی اور محسن شاہنواز رانجھا کو عدالت کی معاونت کے لیے مقرر کیا تھا۔

ہائی کورٹ نے شہریوں کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو کو ریکارڈ کرنے کے لیے کسی قانونی فریم ورک کے بارے میں بھی حیرت کا اظہار کیا تھا۔

درخواست گزار کی جانب سے سپریم کورٹ کے سامنے پیش کی جانے والی دستاویزات میں سے ایک لاہور ہائی کورٹ کا 2 جون 2023 کو سنایا گیا فیصلہ تھا، جس میں عدالت نے کہا تھا کہ ماخذ کی عدم موجودگی میں کسی بھی آڈیو یا ویڈیو کو ثبوت کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔

31 مئی کو ہونے والی آخری سماعت پر سپریم کورٹ نے وفاقی حکومت کی جانب سے کیس کی سماعت کرنے والے بینچ کی تشکیل نو کی درخواست کے بعد کیس کی سماعت آج تک کے لیے ملتوی کردی تھی۔

حکومت نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر کے بینچ سے الگ ہونے کی درخواست کی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں