آئندہ مالی سال کیلئے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کی منظوری

اپ ڈیٹ 07 جون 2023
وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا—فوٹو: پی آئی ڈی
وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا—فوٹو: پی آئی ڈی

وزیرِ اعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس ہوا جس کے دوران مالی سال23۔2022کے نظر ثانی شدہ ترقیاتی بجٹ پی ایس ڈی پی کی منظوری کے ساتھ آئندہ مالی سال کے لیے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد رکھنے کی بھی منظوری دی گئی۔

وزیراعظم آفس کے میڈیا ونگ سے جاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم کی زیرِ صدارت قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس منعقد ہوا۔

اجلاس میں وفاقی وزراء سید نوید قمر، اسحٰق ڈار، احسن اقبال، مولانا اسعد محمود، وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا اعظم خان، سینیٹر نثار احمد کھوڑو، مشیر خزانہ و توانائی خیبر پختونخوا حمایت اللہ، بلوچستان کے سینئر وزیرِ اور وزیر خزانہ نور محمد دُمڑ نے شرکت کی جب کہ نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی اجلاس میں وڈیو لنک کے ذریعے شریک ہوئے۔

اجلاس میں آئندہ مالی سال قومی ترقیاتی بجٹ کاحجم 2709 ارب روپے ہوگا، مجموعی ترقیاتی پروگرام میں وفاق 1150 ارب روپے خرچ کرے گا جس میں 200 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جبکہ 950 ارب روپے وفاق کا پی ایس ڈ ی پی ہوگا۔

صوبوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے ہوگا، پنجاب کا ترقیاتی بجٹ 426 ارب روپے اور خیبر پختونخوا کا 268 ارب روپے ہوگا جو آئندہ چار ماہ کیلئے ہے، سندھ کے سالانہ ترقیاتی بجٹ 617 ارب روپے جبکہ بلوچستان کے سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 248 ارب روپے کی منظوری دی گئی۔

قومی اقتصادی کونسل نے ملکی مجموعی معاشی صورتحال کا جائزہ لیا اور تفصیلی مشاورت کی، وزیرِاعظم نے اجلاس کے شرکا کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ صوبے وفاق کی اکائیاں ہیں اور پاکستان کی خوشحالی تب تک ممکن نہیں جب تک صوبے خوشحال نہ ہوں۔

وزیرِ اعظم نے مزید کہا کہ محدود معاشی وسائل کے باوجود حکومت صوبوں کے ترقیاتی مطالبے پورے کرے گی اور وسائل کی منصفانہ و شفاف تقسیم یقینی بنائے گی۔

’گزشتہ حکومت نے مجرمانہ فعل سے ملکی ترقی کو دانستہ طور پر روکا‘

انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی کی سربراہی میں ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو کہ اس امر کو یقینی بنائے گی کہ صوبوں کو ملنے والے فنڈز میں کسی قسم کی تخصیص نہیں برتی جائے گی بلکہ تمام صوبوں کو ان کی ضروریات کے مطابق موجودہ وسائل منصفانہ اور شفاف بنیادوں پر تقسیم کئے جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی معاشی ترقی ہماری حکومت کی اولین ترجیح ہے، حکومت ملکی معاشی ترقی کیلئے تعلیم، صحت، جدید انفراسٹرکچر اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کررہی ہے، حکومت پاکستان میں گرین ریولوشن 2.0 کی بنیاد رکھ رہی ہے جس سے ملک زراعت میں خود کفیل ہوگا، حکومت زراعت کے شعبے کی جدت، پیداوار میں اضافے اور فی ایکڑ لاگت میں کمی کیلئے اقدامات کر رہی ہے۔

وزیرِاعظم نے مزید کہا کہ 2018 میں جب مسلم لیگ ن نے حکومت چھوڑی تب وفاقی ترقیاتی بجٹ 1000 ارب روپے تھا جوکہ 2021-22 میں کم کرکے صرف 550 ارب روپے کر دیا گیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ اس مجرمانہ فعل سے ملکی ترقی کو دانستہ طور پر روکا گیا مگر موجودہ حکومت نے معاشی چیلنجز کے باوجود ترقیاتی بجٹ میں 100 فیصد سے زائد اضافہ کرکے اسے آئندہ سال کیلئے 1150 ارب روپے کیا ہے تاکہ نہ صرف پاکستان ترقی کرے بلکہ اس ترقی کے ثمرات عام آدمی تک پہنچ سکیں۔

قومی اقتصادی کونسل کو بتایا گیا کہ گزشتہ حکومت کی چھوڑی ہوئی معاشی مشکلات و پاکستان میں تاریخی سیلاب سے معیشت کو 30 ارب ڈالر کے نقصان کے باوجود رواں سال حاصل ہونے والی شرح نمو 0.3 فیصد رہی۔

گزشتہ حکومت نے مالی سال 2021-22 میں 84 ارب ڈالر کی برآمدات کیں جس کی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی اور ملکی معاشی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا۔

آئندہ مالی سال کے لیے ترقی کی شرح کا ہدف 3.5 فیصد پر رکھنے کی بھی منظوری دی گئی، اجلاس کو بتایا گیا کہ رواں سال ملک میں مجوعی طور پر سرمایہ کاری کی شرح 13.61 فیصد رہی جبکہ آئندہ مالی سال میں اس کا ہدف بھی بڑھا کر 15 فیصد رکھا گیا ہے۔

اجلاس میں مالی سال23۔2022کے نظر ثانی شدہ ترقیاتی بجٹ پی ایس ڈی پی کی منظوری دی گئی۔

اجلاس نے مالی سال 24۔2023 کے لیے قومی ترقیاتی بجٹ کی منظوری دے دی، آئندہ مالی سال قومی ترقیاتی بجٹ کاحجم 2709 ارب روپے ہوگا، مجموعی ترقیاتی پروگرام میں وفاق 1150 ارب روپے خرچ کرے گا جس میں 200 ارب روپے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ جب کہ 950 ارب روپے وفاق کا پی ایس ڈی پی ہوگا۔

صوبوں کا مجموعی ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے ہوگا، پنجاب کا ترقیاتی بجٹ 426 ارب روپے اور خیبر پختونخوا کا 268 ارب روپے ہوگا جو آئندہ چار ماہ کیلئے ہے۔

سندھ کا سالانہ ترقیاتی بجٹ 617 ارب روپے جبکہ بلوچستان کے سالانہ ترقیاتی بجٹ کی مد میں 248 ارب روپے کی منظوری دی گئی، سال 2023-24 کے ترقیاتی فنڈ میں رواں برس کی نسبت 17 فیصد کا اضافہ کیا گیا ہے۔

ترقیاتی بجٹ میں مجموعی طور پر 1182 اسکیمیں شامل کی گئی ہیں جن میں 311 نئی جبکہ 871 جاری ترقیاتی اسکمیں ہیں۔

وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی نے اجلاس میں 5- ایز فریم ورک پر شرکا کو بریفنگ دی جس کے تحت برآمدات کے فروغ، ای ڈیجیٹل پاکستان کی ترقی، ماحولیات، توانائی اور مساویانہ پاکستان پر توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس فریم ورک کے تحت ایسا ایجنڈا مرتب کیا گیا ہے جو پاکستان کے لئے ناگزیر ہے، 5ایز میں سب سے پہلے برآمدات کو بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، حکومت کی ترجیح ہے کہ ان پانچ شعبوں کے ذریعے برآمدات کو بڑھایا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی مارکیٹ میں پانچ شعبوں کے ذریعے اپنی برآمدات بڑھانے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے، ڈیجیٹل پاکستان بھی ان میں سے ایک منصوبہ ہے، ڈیجیٹل کی سہولیات پورے پاکستان کو فراہم کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔

اجلاس کو وفاقی وزارتِ منصوبہ بندی کی جانب سے آر ایف 4 منصوبے پر بریفنگ بھی دی گئی۔

اجلاس کو بتایا گیا کہ منصوبے کے تحت سیلاب متاثرہ علاقوں میں تعمیر نو کے منصوبوں پر خطیر رقم خرچ کی جارہی ہے، اس کی فنڈنگ پاکستان کے ترقیاتی شراکت دار عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ قومی اقتصادی کونسل نے ’پاکستان اکنامک آؤٹ لُک 2035‘ کی بھی اصولی منظوری دے دی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ صوبائی حکومتوں و دیگر اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے وزارت منصوبہ بندی اس کا ویژن ڈاکیومنٹ اور اسٹریٹجی پیپر بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ حکومت کی کوئی معاشی پلاننگ نہ ہونے کی وجہ سے ملکی ترقی سست روی کا شکار ہوئی، اگر ملک اسی ڈگر پر چلتا رہتا تو 2035 میں ملکی معیشت کا حجم صرف 550 ارب ڈالر تک پہنچتا اور غربت کی شرح 40 فیصد تک پہنچ جاتی.

ان کا کہنا تھا کہ اس کے برعکس حکومت ٹرانسفارمیشنل گروتھ ماڈل کا جامع منصوبہ پیش کر رہی ہے، اس منصوبہ بندی کے تحت پاکستان میں سالانہ 6.2 فیصد شرح نمو حاصل کرکے پاکستان کی معیشت کے حجم کو 1000 ارب ڈالر تک پہنچایا جائے گا جبکہ شرح غربت کو بھی کم کرکے 15 فیصد پر لایا جائے گا۔

اجلاس کو مزید بتایا گیا کہ 24۔2023 کے ترقیاتی بجٹ میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ، سماجی شعبے، موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ، عالمی معیار کی تعلیم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، زراعت کی ترقی اور توانائی کے شعبے کی جدت و اصلاحات پر خصوصی توجہ مرکوز کی جارہی ہے۔ اجلاس میں سی ڈی ڈبلیو پی اور ایکنک کے اپریل 2022 سے مارچ 2023 تک کی سالانہ پروگرام رپورٹ کی بھی منظوری دی گئی۔

اجلاس نے ملک میں بین الاقوامی معیار کی اعلی تعلیم کے فروغ کیلئے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے بجٹ میں 145 فیصد اضافے کی منظوری دی۔

اس سے اعلی تعلیم کا بجٹ مجموعی طور پر 60 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے جس کیلئے 2021-22 میں گزشتہ حکومت نے صرف 24 ارب مختص کئے تھے۔

اس کے علاوہ 80 ارب روپے کی لاگت سے نوجوانوں کیلئے وزیرِ اعظم کے خصوصی اقدامات جن میں نوجوانوں کو کاروبار کیلئے آسان قرضوں کی فراہمی، پاکستان ایجوکیشن اینڈاؤمنٹ فنڈ کا قیام، آئی ٹی اسٹارٹ اپس، لیپ ٹاپ اسکیم، نوجوانوں کو ہنر سکھانے کیلئے تربیتی پروگرام اور وینچر کیپٹل کے فروغ کے پروگرام شامل ہیں، کی منظوری دی، قومی اقتصادی کونسل کو قومی توانائی بچت پلان پر بھی بریفنگ دی گئی، جس کی منظوری وفاقی کابینہ پہلے ہی دے چکی ہے۔

اجلاس کے شرکا کو بتایا گیا کہ ان سفارشات پر عمل کر کے مختصر عرصے میں صرف ایندھن کے درآمدی بل کی مد میں 10۔15 فیصد یعنی ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی بچت کی جا سکے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں