جیو نیوز کے ’اٹھائے گئے‘ ایگزیکٹو پروڈیوسر زبیر انجم 24 گھنٹوں بعد گھر واپس پہنچ گئے

اپ ڈیٹ 07 جون 2023
گزشتہ روز ساہ لباس میں ملبوس افراد زبیر انجم کو   کراچی میں ان کے گھر سے اٹھاکر لے گئے تھے—فوٹو: ٹوئٹر
گزشتہ روز ساہ لباس میں ملبوس افراد زبیر انجم کو کراچی میں ان کے گھر سے اٹھاکر لے گئے تھے—فوٹو: ٹوئٹر

نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ سے وابستہ ایگزیکٹو پروڈیوسر زبیر انجم 7 جون کی صبح گھر واپس پہنچ گئے، گزشتہ روز ساہ لباس میں ملبوس افراد انہیں رہائش گاہ سے ’اٹھا کر ’ لے گئے تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اہل خانہ نے ڈان سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ زبیر انجم کراچی کے علاقے ماڈل کالونی میں اپنے گھر میں موجود تھے، جب 2 پولیس موبائل اور ڈبل کیبن گاڑیوں میں افراد زبیرانجم کو ساتھ لے گئے تھے۔

اہلِ خانہ نے مزید بتایا تھا کہ ’مسلح افراد‘ نے مبینہ طور پر گھر میں داخل ہوئے، اہل خانہ کو ہراساں کیا اور زبیر انجم کو اپنے ساتھ لے گئے۔

صحافی کے بھائی سعادت علی نے بتایا تھا کہ اہلکار، زبیر انجم کا موبائل فون اور پڑوس میں لگے کیمروں کی ڈیجیٹل ویڈیو ریکارڈر (ڈی وی آر) بھی ساتھ لے گئے۔

سعادت علی نے مزید بتایا تھا کہ اہلکاروں میں سے کچھ بندوقیں اٹھائے اور ماسک بھی پہنے ہوئے تھے۔

دوسری جانب کورنگی کے ایس ایس پی طارق نواز نے میڈیا کو بتایا تھا کہ پولیس کو صحافی کی گرفتاری کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے، انہوں نے واضح کیا کہ ضلع کورنگی پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔

تاہم جیو نیوز کی رپورٹ کے مطابق صحافی 7 جون کی آدھی رات کے بعد گھر واپس پہنچ گئے ہیں، صحافی کے بھائی نے بتایا کہ زبیر انجم بالکل خیریت سے ہیں۔

ایک ہفتے کے اندر نامور شخصیات کو اپنی رہائش گاہ سے اٹھا کر لے جانے کا یہ دوسرا واقعہ رپورٹ ہوا تھا، اس سے قبل یکم جون کو وکیل اور سماجی کارکن جبران ناصر کو بھی ’نامعلوم افراد‘ نے اس وقت اغوا کیا تھا جب وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ کراچی کے علاقے ڈیفنس میں اپنے گھر واپس جارہے تھے۔

تاہم اغوا ہونےکے تقریباً 24 گھنٹے بعد وہ گھر واپس پہنچ گئےتھے۔

صحافی برادری کا نوٹس

اس سے قبل صحافیوں کے تحفظ کے لیے بنائی گئے سندھ حکومت کے کمیشن کے رکن فہیم صدیقی نے کہا تھا کہ کمیشن اور دیگر صحافیوں نے زبیر انجم کے مبینہ اغوا کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو 36 گھنٹوں کے اندر ان کی بازیابی کے لیے ہدایات جاری کی تھیں۔

کمیشن کے چیئرپرسن ریٹائرڈ جسٹس رشید اے رضوی نے صوبائی سیکریٹری داخلہ اور پولیس چیف کو زبیر انجم کو بازیاب کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ کسی فوجداری مقدمے میں مطلوب نہیں تھے، ’اس لیے واضح طور پر یہ اغوا کا کیس ہے‘۔

متعدد مقامی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں نے بھی صحافی کے اغوا کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعظم، وزیر داخلہ، وزیر خارجہ، وزیر اعلیٰ سندھ اور آئی جی پولیس سے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی تھی۔

انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس اور اس سے وابستہ مقامی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس نے صحافی کی گمشدگی کی مذمت کرتے ہوئے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکومت سے فوری تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

کراچی پریس کلب نے ایک بیان میں کہا تھا کہ زبیر انجم ان کے رکن ہیں اور ان کے ’گن پوائنٹ پر اغوا‘ اور انہیں نامعلوم مقام پر منتقل کرنے کی مذمت کرتے ہیں۔

کراچی پریس کلب نے اس اقدام کو میڈیا کی آزادی کو یرغمال بنانے اور اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں عائد کرنے کے مترادف قرار دیا۔

پریس کلب نے پیر کی رات دیر گئے پروڈیوسر کے گھر میں زبردستی گھس کر انہیں بندوق کی نوک پر اغوا اور ان کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے کو ’ریاستی دہشت گردی‘ قرار دیا۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ زبیر انجم کا ریکارڈ بالکل صاف ہے اور وہ کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث نہیں رہے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس نے آرمی چیف، چیف جسٹس آف پاکستان اور وزیر اعظم سے واقعے کا فوری نوٹس لینے کا مطالبہ کیا تھا اور ان کا مطالبہ پورا نہ ہونے کی صورت میں ’شدید ردعمل‘ سے بھی خبردار کیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں