امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کی سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی جس میں انسانی حقوق سمیت سوڈان اور یمن تنازع کے خاتمے اور علاقائی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق انٹونی بلنکن اس وقت اپنے تین روزہ دورے پر سعودی عرب میں موجود ہیں جہاں وہ سوڈان اور یمن تنازع کے خاتمے، اسلامک اسٹیٹ گروپ (داعش) کے خلاف مشترکہ جنگ اور سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکان پر تفصیلی تبادلہ خیال کریں گے۔

ایک امریکی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات کی تھی، ملاقات کے دوران دونوں نے علاقائی اور دوطرفہ مسائل کے علاوہ سیکیورٹی تعاون پر تبادلہ خیال کیا تھا۔

تاہم گزشتہ روز انٹونی بلنکن کی سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ساتھ ہونے والی ملاقات 40 منٹ تک جاری رہی۔

ملاقات میں سوڈان سے امریکی انخلا کے لیے سعودی عرب کی حمایت، یمن میں سیاسی مذاکرات کی ضرورت اور سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کے امکان سمیت دیگر موضوعات پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔

توانائی کی قیمتیں

سعودی عرب کا ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کے بعد سے انٹونی بلنکن کا یہ پہلا دورہ ہے، واضح رہے کہ مغرب ایران کو متنازع جوہری سرگرمیوں اور علاقائی تنازعات میں ملوث سمجھتا ہے۔

دورے کے دوران امریکا نے معاہدے کے لیے محتاط حمایت کی پیشکش کی۔

واضح رہے کہ امریکا۔سعودی تعلقات 2018 میں اس وقت تناؤ کا شکار ہوئے تھے جب امریکی صحافی جمال خاشقجی کا قتل ہوا تھا۔

59 سالہ جمال خاشقجی کو 2 اکتوبر 2018 کو ترکیہ کے شہر استنبول میں سعودی قونصل خانے میں لالچ میں لایا گیا تھا اور انہیں سعودی ولی عہد سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک ٹیم نے ہلاک کردیا تھا۔

تاہم واشنگٹن کو اس وقت پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب نے گزشتہ سال فروری کے بعد یوکرین پر روس کے حملے کے بعد توانائی کی قیمتیں کم کرنے میں مدد کرنے سے انکار کردیا تھا۔

دوسری جانب امریکی عبداللہ القحطانی سمیت انسانی حقوق کے کارکنان نے نیوز کانفرنس کے دوران اپنے والد محمد القحطانی کے لاپتا ہونے سے متعلق انٹونی بلنکن پر زور دیتے ان سے تشویش کا اظہار کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔

یاد رہے کہ سعودی عرب میں انسانی حقوق کے ایک معروف کارکن محمد القحطانی کے خلاف عدالتی مقدمے کی کارروائی اس وقت شروع ہوئی جب ان پر بین الاقوامی اداروں کو سعودی عرب کے خلاف کرنا، سعودی بادشاہ کے ساتھ جفا کرنا سمیت دیگر کئی الزامات عائد کیے گئے تھے۔

محمد القحطانی کے بیٹے نے نیوز کانفرنس کے دوران کہا کہ میرے والد کس حالت میں ہیں؟ کیا وہ زندہ ہیں؟ کیا ان پر تشدد کیا جارہا ہے؟ ہم ان کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

اس کے علاوہ 37 سالہ شہزادہ محمد بن سلمان ایک آزاد خارجہ پالیسی کا راستہ اختیار کر رہے ہیں اور 5 جون کو وینزویلا کے صدر نکولس مدورو کی بھی میزبانی کی۔

کئی دہائیوں سے امریکا اور اسرائیل کو دشمن کی نظر سے دیکھنے والے ملک ایران نے 7 سال کے وقفے کے بعد 6 جون کو سعودی عرب میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا تھا۔

اس کے باوجود امریکا۔سعودی اسٹریٹجک بالخصوص دفاعی تعلقات اب بھی بہت مضبوط ہیں۔

’سعودی عرب کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات‘

امریکی اور سعودی سفارت کاروں نے سوڈان کی 8 ہفتے پرانی جنگ میں دیرپا جنگ بندی کی کوششوں پر تعاون کیا ہے، لیکن یہ کوششیں اب تک کامیاب نہ ہوسکیں۔

دونوں اتحادی ممالک داعش کے خلاف جاری جنگ میں بھی مصروف ہیں۔

امریکا اور سعودی عرب، یمن میں تنازع کو ختم کرنے کی کوششوں پر بھی بات کر رہے ہیں، جہاں سعودی قیادت کے اتحاد نے طویل عرصے سے ایران کی حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف لڑائی میں حکومت کو فوجی مدد فراہم کی تھی۔

امریکا کو بھی امید ہے کہ سعودی عرب، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے پر راضی ہو جائے گا۔

اپنے سعودی دورے کے موقع پر انٹونی بلنکن نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے میں امریکا کا قومی سلامتی کا مفاد ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکا ایسے کسی وہم کا شکار نہیں کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات جلدی یا باآسانی حل ہوجائیں گے، لیکن انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ’اس حوالے سے اپنا کردار ادا کرنے کے لیے پرعزم ہیں‘۔

دوسری جانب اس معاملے پر سعودی عرب کا مؤقف ہے کہ اسرائیل کو پہلے ایک آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنا چاہیے۔

تبصرے (0) بند ہیں