’پاکستان ریلوے کے عملے کی ملی بھگت سے 14 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر قبضہ کیا گیا‘

اپ ڈیٹ 08 جون 2023
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس 7 جون کو پاکستان ریلوے کی 2019-20 کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے ہوا تھا—فائل فوٹو: آن لائن
پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس 7 جون کو پاکستان ریلوے کی 2019-20 کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے ہوا تھا—فائل فوٹو: آن لائن

پاکستان ریلوے کے سیکریٹری سید مظہر علی شاہ نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کو بتایا کہ پاکستان ریلوے کے عملے کی ملی بھگت سے عوام نے ریلوے کی 14 ہزار ایکڑ سے زائد اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے اور اگر فوری طور پر سرمایہ کاری نہ کی گئی تو یہ ادارہ زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان ریلوے کے سیکریٹری نے مزید بتایا کہ لوگوں نے جس اراضی پر قبضہ کر رکھا ہے ان میں پاکستان ریلوے کی زرعی، تجارتی اور رہائشی زمین شامل ہیں۔

مظہر علی شاہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک سنگین مسئلہ ہے، مستقبل میں اس ادارے کو قائم رکھنے کے لیے 11 ہزار 880 کلو میٹر کی پرانی پٹریوں میں سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت ہے’۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس 7 جون کو پاکستان ریلوے کی 20-2019 کی آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے ہوا تھا۔

اجلاس کے دوران پاکستان ریلوے کے سیکریٹری سید مظہر علی شاہ نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان ریلوے کی 45 فیصد آمدنی پینشن میں چلی جاتی ہے، پاکستان ریلوے میں ایندھن کی قیمت 28 ارب روپے جبکہ بجلی کی قیمت 4 ارب روپے ہے، 70 سالوں میں پہلی بار پہلی ٹرانسپورٹ پالیسی 2018 میں تیار کی گئی۔

پاکستان ریلوے کا بھارت سے موازنہ کرتے ہوئے سینئر عہدیدار نے بتایا کہ جب بھارت نے ریلوے پر توجہ مرکوز کی تو انہوں نے اپنے ریل نیٹ ورکس پر سالانہ 21 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے جب کہ پاکستان نے سڑکوں کی تعمیر پر ٹھیکے دینے پر توجہ دی۔

عہدیدار نے نشاندہی کی کہ پاکستان ریلوے، شمسی توانائی پر انحصار کرکے بجلی کے بلوں میں 2 ارب 50 کروڑ روپے کی کمی کے اقدامات کرکے تحفظ، صارفین کو فراہم کی جانے والی خدمات اور منافع کے حوالے سے خریداریوں کو ترجیح دی۔

کمیٹی کا کہنا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ مزید وقت ضائع کرنے کے بجائے ٹرینوں کو الیکٹرونک ٹرین میں اپ گریڈ کیا جائے، ورنہ لاگت میں مزید اضافہ ہوتا جائے گا۔

آڈیٹر جنرل پاکستان کے دفتر نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے اجلاس کو بتایا کہ پاکستان ریلوے کی اراضی پر قبضے سے ادارے کو 4 ارب 40 کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے سیکریٹری ریلوے کو ہدایت کی کہ وہ پاور ڈویژن کو خط لکھیں جس میں آگاہ کیا جائے کہ زمینوں پر غیر قانونی طور پر تعمیر شدہ تمام عمارتوں اور اسٹرکچر کو بجلی کی فراہمی معطل کردی جائے۔

آڈیٹر جنرل پاکستان نے نشاندہی کی کہ ایک ارب 13 کروڑ روپے کے سرپلس سائٹس کی نیلامی نہ کرنے کی وجہ سے پاکستان ریلوے کی آمدنی کو کافی نقصان ہوا۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ پاکستان ریلوے 2004 سے لے کر 2017 تک 65 وینڈنگ اسٹالز، تین پارکنگ اسٹینڈز، 295 دکانوں، 164 اراضی اور 2 بل بورڈز کی نیلامی کا انتظام کرنے میں ناکام رہا۔

اجلاس کو آگاہ کیا گیا کہ کم قیمتوں میں ٹھیکے دینے پر پاکستان ریلوے کو 62 کروڑ 20 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

غفلت برتنے کی وجہ سے ہونے والے نقصانات کے لیے پاکستان ریلوے کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے کہا کہ زمین، پارکنگ اسٹینڈ، لگیج وین وغیرہ مختلف نجی عمارتوں کو کم نرخوں پر لیز پر دیے گئے۔

کمیٹی کو مزید بتایا گیا کہ ریلوے اسٹیشن پارکنگ اسٹینڈز کی تزئین و آرائش، تعمیرات/خصوصی مرمت، میٹریل کی خریداری وغیرہ سے متعلق بعض ٹھیکے ناقص مذاکرات کے ذریعے مختلف ٹھیکیداروں کو دیے گئے اور پبلک پروکیورمنٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ٹھیکوں کی رقم میں کمی کی گئی جس کی وجہ سے ادارے کو 55 کروڑ 60 لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔

ان اعتراضات کی بنیاد پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ایم این اے نور عالم خان نے وفاقی سیکریٹری کو ہدایت کی کہ وہ افسران کے خلاف انکوائری کریں اور ذمہ داروں کا تعین کرکے معاملہ حل کریں، یہی نہیں بلکہ 20 جون کو دوبارہ اجلاس ہونے کے بعد کمیٹی کو مزید تفصیلات سے آگاہ کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں