امید ہے عمران ریاض آئندہ چند روز میں بازیاب ہوجائیں گے، وکیل

اپ ڈیٹ 27 جون 2023
عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا — فائل فوٹو: فیس بک
عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا — فائل فوٹو: فیس بک

لاپتا اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی کے سلسلے میں ان کے والد اور وکیل کی جانب سے چند روز میں مثبت پیش رفت سامنے آنے کی امید ظاہر کی گئی جس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے اینکر کی گمشدگی سے متعلق درخواست پر سماعت ملتوی کردی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے درخواست کی سماعت کی جس کے لیے درخواست گزار محمد ریاض کی جانب سے وکیل میاں علی اشفاق عدالت میں پیش ہوئے۔

کیس میں پیش رفت کے بارے میں پوچھے جانے پر وکیل نے کہا کہ گزشتہ چند روز میں کیس میں کچھ مثبت پیش رفت ہوئی ہے اور امید کی جا رہی ہے کہ اینکر پرسن آئندہ چند روز میں بحفاظت بازیاب ہو جائیں گے۔

جس پر چیف جسٹس نے مزید سماعت 5 جولائی تک ملتوی کر دی۔

گزشتہ سماعت کے دوران پنجاب کے انسپکٹر جنرل پولیس (آئی جی پی) ڈاکٹر عثمان انور نے عدالت کو بتایا تھا کہ تمام قانون نافذ کرنے والے ادارے مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں اور پنجاب پولیس کے اسپیشل ورکنگ گروپ نے اینکر پرسن کی بازیابی کے لیے محکمہ انسداد دہشت گردی سمیت پولیس کی تمام یونٹس کی پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے اجلاس کیے۔

عمران ریاض خان گرفتاری کیس

خیال رہے کہ عمران ریاض کو 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے بیرونِ ملک جاتے ہوئے مینٹیننس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) رولز کے تحت گرفتار کر کے کینٹ پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل منتقل کردیا گیا تھا۔

ان کے وکیل نے بتایا تھا کہ ’اس دوران ان کے اہلِ خانہ سے ان کا اس سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تھا اور سوشل میڈیا پر کچھ افواہیں گردش کرنے لگیں تو 12 مئی کی صبح لاہور ہائی کورٹ میں وکلا کے ذریعے ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی‘۔

12 مئی کو ان کی بازیابی سے متعلق درخواست پر ہونے والی سماعت میں ڈی پی او سیالکوٹ نے عدالت کو بتایا تھا کہ اینکر نے بیانِ حلفی جمع کرادیا تھا جس پر ان کی نظر بندی کے احکامات واپس لے کر جیل سے رہا کیا جاچکا ہے۔

جس پر عدالت نے پولیس کو عمران ریاض کی جیل سے رہائی کا ویڈیو ریکارڈ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

15 مئی کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کو گرفتار کرنے والے پولیس اہلکار کو معطل کردیا تھا جبکہ چیف جسٹس نے ایس ایچ او کو اظہارِ وجوہ کا نوٹس جاری اور ڈی پی او کو سخت کارروائی کا انتباہ دیا تھا۔

16 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

18 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو کل (19 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔

19 مئی کی سماعت میں پولیس کی جانب سے عمران کی گرفتاری سے متعلق ایک سی سی ٹی وی ریکارڈنگ عدالت میں چلائی گئی، جس میں انہیں جیل سے گاڑی میں لے جایا جا رہا تھا، فوٹیج میں تین گاڑیاں جیل کے باہر کھڑی تھیں اور ان میں سے ایک میں عمران ریاض کو ساتھ لے جاتے ہوئے دیکھا گیا۔

20 مئی کو عدالت نے پنجاب پولیس کو اینکرپرسن عمران ریاض خان کو 22 مئی (پیر) تک بازیاب کروا کر ہر صورت میں عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

22 مئی کو ہوئی سماعت میں آئی جی پنجاب نے عمران خان کے ٹھکانے سے متعلق لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے ساری ایجنسیوں کےافراد کے ساتھ میٹنگ کی، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا ہے، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے۔

26 مئی کو ہوئی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ تمام ایجنسیاں مل کر کام کریں اور اینکر پرسن کو بازیاب کرا کے 30 مئی کو عدالت میں پیش کریں۔

6 جون کو لاہور ہائی کورٹ نے صحافی عمران ریاض کے والد کو پنجاب پولیس کی خصوصی ورکنگ کمیٹی میں اپنے تحفظات بیان کرنے کی ہدایت کی تھی۔

14 جون کی سماعت میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے مبینہ طور پر لاپتا اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کو مزید دو ہفتے کی مہلت دی اور ان کے اہل خانہ کے وکیل نے کوششوں پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں