پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے، آئی جی پنجاب

اپ ڈیٹ 22 مئ 2023
عمران ریاض کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میری اطلاعات ہیں کہ عمران ریاض لاہور میں ہی ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر
عمران ریاض کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میری اطلاعات ہیں کہ عمران ریاض لاہور میں ہی ہیں — فائل فوٹو: ٹوئٹر

لاہور ہائی کورٹ نے وزارت داخلہ اور وزارت دفاع کو حکم دیا کہ وہ اینکر پرسن عمران ریاض کو پیش کرکے اپنی آئینی ذمہ داری پوری کریں جبکہ انسپکٹر جنرل (آئی جی) پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے 11 مئی کو سیالکوٹ ایئرپورٹ سے گرفتار اینکر پرسن سے متعلق لاعلمی کا اظہار کر دیا ۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس امیر محمد بھٹی نے اینکرپرسن عمران ریاض خان کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت ہوئی جہاں آئی جی پنجاب سمیت دیگر متعلقہ افسران چیف جسٹس کے روبرو پیش ہوئے تاہم عدالتی حکم کے باوجود اینکرپرسن عمران ریاض کو بازیاب کرا کے عدالت پیش نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آئی جی صاحب آپ کی جانب سے کیا پیش رفت ہے؟ آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ایجنسی نے پولیس کی گاڑی کو بلایا تھا، کیوں بلایا تھا یہ آپ ایجنسی کو بلا کر پوچھ سکتے ہیں، عمران ریاض خان ہمیں مطلوب نہیں تھے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ نے بازیابی کے لیے کیا اقدامات کیے؟ ورنہ آپ کے خلاف کارروائی کروں گا، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ ہم نے کل رات بھی میٹنگ کی ہے، ساری ایجنسیوں کے لوگ آئے تھے، پورے پاکستان کی پولیس سے پوچھ لیا ہے، کسی کے پاس عمران ریاض نہیں ہے، عدالت سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری دفاع سے بھی اس بارے میں جواب مانگے، انہیں کہیں کہ ہماری مدد کریں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو مزید وقت چاہیے، آئی جی پنجاب نے جواب دیا کہ جی بالکل، ہم نے خود وزارت داخلہ سے رابطہ کیا ہے لیکن وہاں سے کوئی جواب نہیں آیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ عدالت، عمران ریاض کی زندگی کے لیے کوشش کر رہی ہے اور اس کی حفاظت کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ عدالت وزارت داخلہ کے نمائندے کو عدالت میں بلا لے تاکہ ہم ان سے مل کر اس معاملے کو آگے بڑھائیں۔

اس دوران عمران ریاض کے وکیل اظہر صدیق نے کہا کہ میری اطلاعات ہیں کہ عمران ریاض نہ صرف پنجاب میں ہیں بلکہ وہ لاہور میں ہی ہیں، عمران ریاض کے گھر جنہوں نے ریڈ کیا ان میں سے ایک بندہ وہی ہے جو سیالکوٹ سے عمران ریاض کو لے کر گیا، اس پر آئی جی پنجاب نے کہا کہ عمران ریاض پولیس کے کسی سینٹر میں نہیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں آپ کو ایک اور موقع دے رہا ہوں، اگر خدانخواستہ اسے کوئی نقصان ہوتا ہے تو میں سب کو فکس کروں گا، آج کی سماعت سے متعلق حکم جاری کریں گے۔

بعد ازاں عدالت نے حکم جاری کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی یا وفاقی تمام ایجنسیاں قانون کے تحت پابند ہیں کہ وہ دستیاب وسائل کا استعمال کرتے ہوئے اس ملک کے لاپتا شہریوں کو ڈھونڈ نکالیں۔

عدالت نے کہا کہ دونوں وزارتوں(وزارت داخلہ اور وزارت دفاع) کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ مذکورہ زیرحراست/لاپتہ شہری کو بازیاب کرانے کے لیے اپنا آئینی فرض پورا کریں۔

لاہور ہائی کورٹ نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے دائر درخواست پر سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ 20 مئی کو ہونے والی گزشتہ سماعت کے دوران اینکرپرسن عمران ریاض کے والد لاہور ہائی کورٹ کے سامنے اپنے بیٹے کی بازیابی کی درخواست کرتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے تھے، جبکہ عدالت نے عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق پیش رفت رپورٹ طلب کر لی تھی۔

عمران ریاض خان گرفتاری کیس

خیال رہے کہ 19 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے اینکر پرسن عمران ریاض کی بازیابی سے متعلق کیس میں پولیس کو (20 مئی) تک پیش رفت سامنے لانے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس محمد امیر بھٹی نے عمران ریاض کے والد محمد ریاض کی درخواست پر سماعت کی تھی اور اس دوران ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے۔

چیف جسٹس نے عمران ریاض کی بازیابی کے لیے پولیس کے اقدامات پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس نے تو ابھی تک کچھ نہیں کیا۔

چیف جسٹس نے ڈی پی او کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ نے ایک سب انسپکٹر تعینات کردیا باقی آپ نے کہا جاؤ موج کرو۔

اس سے قبل 17 مئی کو لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سیالکوٹ کے ڈی پی او کو اینکر عمران ریاض خان کو 48 گھنٹوں میں پیش کرنے کے حکم کے ایک روز بعد سٹی پولیس نے نامعلوم افراد اور پولیس اہلکاروں کے خلاف ان کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا تھا۔

اینکر عمران ریاض خان کے والد محمد ریاض کی مدعیت میں لاہور کے تھانہ سول لائنز میں تعزیرات پاکستان کی سیکشن 365 کے تحت فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) درج کرلی گئی تھی۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ اینکرپرسن کو پولیس اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے سیالکوٹ ایئر پورٹ سے گرفتار کیا اور اس کے بعد سیالکوٹ جیل منتقل کر دیا گیا۔

درخواست گزار نے کہا تھا کہ گرفتاری کے وقت میرے بیٹے کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں تھا اور انہیں غیرقانونی طور پر حراست میں لیا گیا اور اس دوران اہل خانہ سے بھی ملنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

خیال رہے کہ 11 مئی کو گرفتاری کے بعد عمران ریاض خان کے بارے میں معلومات نہیں ہیں، انہیں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد جلاؤ گھیراؤ اور کشیدگی کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، ان کے علاوہ بھی چند صحافیوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں