سپریم کورٹ نے احاطہ عدالت سے ملزمان کی گرفتاری پر خبردار کردیا

08 جولائ 2023
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا—تصاویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ
عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے چیئرمین پی ٹی آئی کو رہا کرنے کا حکم دیا تھا—تصاویر: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سربراہ عمران خان کی اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کے احاطے سے 9 مئی کو گرفتاری سے متعلق تفصیلی حکم نامہ جاری کردیا جس میں انہیں رہا کرنے کی وجوہات بتائی گئی ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو عدالت کے احاطے کے اندر سے کسی کو گرفتار کرنے کے خلاف بھی خبردار کیا، خاص طور پر جب کہ ملزم نے ہتھیار ڈال دیے ہوں۔

چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس اطہر من اللہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے انہیں قومی احتساب بیورو (نیب) کی حراست سے رہا کرنے کا حکم دیا تھا۔

پی ٹی آئی کے سربراہ کو 19کروڑ پاؤنڈ القادر ٹرسٹ کرپشن کیس کے سلسلے میں حراست میں لیا گیا تھا اور وہ 8 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں تھے۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلہ دیا کہ اس نے ’انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کے ساتھ سلوک کیا تاکہ اس میں مناسب ریلیف کے لیے عدالت کے دائرہ اختیار سے درخواست کرنے کا حق شامل ہو‘۔

عدالت عظمیٰ نے شرجیل انعام میمن کی ضمانت کی درخواستوں میں دیے گئے ایک حکم کا بھی حوالہ دیا جس میں انصاف تک رسائی کے دائرہ کار کو صرف اس طبقے تک محدود کرنے کے منفی اثرات کو تسلیم کیا گیا جو عدالتوں سے رجوع کرنے کے قابل ہیں۔

اس معاملے میں درخواست گزار نے حفاظتی ضمانت حاصل کرنے کے لیے ہائی کورٹ کے آئینی دائرہ اختیار سے استدعا کی تھی تاکہ وہ مناسب ریلیف کے لیے مجاز عدالت سے رجوع کر سکے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کسی مشتبہ شخص کو ریلیف دینا ایک معمول کی بات ہے کہ ’ان کے انصاف اور آزادی تک رسائی کے بنیادی حقوق کو ایک مجاز عدالت تک بلا روک ٹوک رسائی کو یقینی بنا کر نافذ کیا جائے‘۔

عمران خان کے کیس پر بحث کرتے ہوئے بینچ کا خیال تھا کہ ’اگر ہائی کورٹ کے احاطے سے درخواست گزار کی گرفتاری کی توثیق کی جاتی ہے تو اس کی عدالت میں القادر ٹرسٹ کیس میں دائر ضمانت قبل از گرفتاری کی درخواست بے کار ہو جائے گی، اس حقیقت کے باوجود کہ انہوں نے ہائی کورٹ کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تھے‘۔

عدالت نے کہا کہ یہ اقدام نہ صرف درخواست گزار کو اس کے بنیادی حق آزادی کے تحفظ کے لیے ایک مجاز عدالت تک رسائی کے حق سے محروم کر دے گا بلکہ پولیس حکام/تفتیشی ایجنسیوں کو بھی دعوت دے گا کہ وہ ملزمان کو پکڑنے کے لیے کہ عدالت کے احاطے کو شکار گاہ کے طور پر استعمال کریں، خاص طور پر جب ملزمان اپنی گرفتاری پر عدالتی نگرانی کے متلاشی ہوں۔

عدالت عظمیٰ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ انصاف تک رسائی کے بنیادی حق کی اس طرح کی تنگ تشریح کو اس عدالت سے منظور نہیں کیا جا سکتا اور اسی لیے اسے واضح طور پر مسترد کر دیا گیا۔

فیصلے کے مطابق ہائی کورٹ کے بائیو میٹرک تصدیق کے کمرے سے درخواست گزار کی گرفتاری کو آئین کے آرٹیکل 4، 9 اور 10 اے کے تحت اس کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی پر ناجائز اور غیر قانونی قرار دیا جاتا ہے۔

اس کے بعد عدالت عظمیٰ نے ’وقت پلٹنے کا فیصلہ کیا اور پولیس کو حکم دیا کہ وہ ملزم کو اسلام آباد کورٹ کے سامنے پیش کرے تاکہ القادر ٹرسٹ کیس میں اس کی قبل از گرفتاری ضمانت کی درخواست کی سماعت ہائی کورٹ میں کی جائے۔

اس عدالت کا خیال تھا کہ صرف اس طرح کی کارروائی ہی پولیس حکام اور تفتیشی ایجنسیوں کو مستقبل میں ایسے طرز عمل سے باز رکھے گی جس سے عدالتوں کے وقار، تقدس اور تحفظ اور شہریوں کے بنیادی حق دونوں کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

سپریم کورٹ نے یہ بھی وضاحت کی کہ عمران خان کو ’اگلی صبح ہائی کورٹ میں درخواست گزار کی محفوظ نقل و حمل کو یقینی بنانے کے لیے‘ ایک دن کے لیے پولیس کی تحویل میں دیا گیا تھا۔

فیصلے میں مزید کہا گیا کہ ’اسی طرح ہائی کورٹ کے سامنے اپنے قانونی دفاع کو آسان بنانے کے لیے، اس عدالت نے درخواست گزار کو پولیس کی حراست میں رہتے ہوئے، اس کی قانونی ٹیم کے ارکان سمیت 10 مہمانوں سے ملنے کی اجازت دی تھی‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں