پنجاب میں لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے جانے کا انکشاف

14 جولائ 2023
رواں سال کے ساڑھے 5 ماہ میں پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے مجموعی طور پر ایک ہزار 390 واقعات رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز
رواں سال کے ساڑھے 5 ماہ میں پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے مجموعی طور پر ایک ہزار 390 واقعات رپورٹ ہوئے—فائل فوٹو: رائٹرز

محکمہ داخلہ پنجاب کی ایک ’خفیہ‘ رپورٹ میں صوبے میں بچوں سے زیادتی کے جرائم کی شرح میں اضافے پر شدید تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، جس میں یہ انکشاف بھی سامنے آیا کہ اس بھیانک جرم کا نشانہ بننے والے لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی خبر کے مطابق رپورٹ میں پریشان کن انکشافات کیے گئے ہیں کہ عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کرنے والے مجرموں میں سے 55 فیصد متاثرین کے پڑوسی، 32 فیصد اجنبی اور 13 فیصد رشتہ دار تھے۔

محکم داخلہ نے فیلڈ اسٹاف کا استعمال کرتے ہوئے پنجاب میں بچوں کے ساتھ زیادتی کا علاقہ وار ڈیٹا اکٹھا کیا اور بتایا کہ راولپنڈی ریجن اور لاہور شہر میں صوبے کے دیگر ڈویژنوں کے مقابلے بچوں کے خلاف سب سے کم جرائم رپورٹ ہوئے۔

رپورٹ نے پنجاب میں بچوں کے خلاف جنسی جرائم پر قابو پانے میں بنیادی رکاوٹوں کے طور پر بہت سے اہم عوامل کی نشاندہی کی ہے۔

رپورٹ کے مطابق رواں سال کے ابتدائی ساڑھے 5 ماہ کے دوران پنجاب میں بچوں سے زیادتی کے مجموعی طور پر ایک ہزار 390 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں سے 959 (69 فیصد) متاثرہ لڑکے اور 431 (31 فیصد) لڑکیاں تھیں۔

محکمے نے اپنی رپورٹ میں بچوں سے زیادتی کے جرائم پر قابو پانے کے لیے سفارشات بھی پیش کیں اور رپورٹ لاہور کے کیپیٹل سٹی پولیس آفیسر (سی سی پی او) اور ریجنل پولیس آفیسرز (آر پی اوز) کو بھجوادی تاکہ اس پر عمل کیا جاسکے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پنجاب میں (بچوں کے ساتھ زیادتی) کے کیس کثرت سے درج کیے جا رہے ہیں اور زیادہ تر شکایات لڑکیوں کے مقابلے لڑکوں کی جانب سے رپورٹ کی جاتی ہیں۔

محکمہ داخلہ نے کہا کہ ’تشویشناک بات ہے کہ متعدد کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوئے، ہمارے معاشرے میں خوف اور ثقافتی ممنوعات جرم کی اطلاع دینا مشکل بنا دیتے ہیں‘۔

رپورٹ کے مطابق والدین کی جانب سے اپنے بچوں کا میڈیکو لیگل معائنہ نہ کرانے کی خواہش بھی اس سلسلے میں ایک رکاوٹ ہے۔

اس میں مزید نشاندہی کی گئی کہ خاندان کے افراد، دوستوں اور پڑوسیوں یا کمیونٹی کی جانب سے تعاون کی کمی متاثرہ بچوں کو الگ تھلگ کرنے کا باعث بنتی ہے، جس سے وہ بدسلوکی کرنے والے کے بارے میں اپنا تجربہ بتانے میں ہچکچاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے ذمہ دار دیگر عوامل کے علاوہ سماجی و اقتصادی دباؤ، بے روزگاری، خود اعتمادی کی کمی، نااہلی کے احساسات، تنہائی اور نفسیاتی اضطراب شامل ہیں‘۔

اعداد و شمار کے مطابق گوجرانوالہ ریجن/ڈویژن میں بچوں سے زیادتی کے (220)، ڈیرہ غازی خان میں (199)، فیصل آباد (186)، ملتان (140)، بہاولپور (129)، شیخوپورہ (128)، ساہیوال (127) اور سرگودھا میں (103) واقعات رپورٹ ہوئے جبکہ راولپنڈی ریجن اور لاہور شہر بالترتیب 69 اور 89 کیسز کے ساتھ سب سے نیچے ہیں۔

محکمہ داخلہ نے مزید بتایا کہ رجسٹرڈ ہونے والی ایف آئی آرز میں سے 799 مقدمات کے چالان عدالتوں میں جمع کرائے گئے، 441 زیر تفتیش جبکہ 148 کو بند/خارج کر دیا گیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’متاثرین کو مورد الزام ٹھہرانے والے رویوں اور بچوں کے حقوق کے بارے میں بیداری کی کمی نے جرم سے نمٹنے اور اس کی روک تھام میں درپیش چیلنجوں کو مزید بڑھا دیا ہے‘۔

اس میں ذکر کیا گیا کہ پاکستان نے بچوں کے جنسی استحصال سے نمٹنے کے لیے بہت سے قوانین بنائے ہیں جس میں فوجداری قانون (ترمیمی) ایکٹ 2016، بچوں سے زیادتی کی روک تھام کا ایکٹ 2018 اور زینب الرٹ، رسپانس اور ریکوری ایکٹ 2020 شامل ہیں۔

تاہم متاثرین کے لیے انصاف اور مجرموں کو سزا دینے کے لیے مؤثر عملدرآمد، نفاذ، اور متعلقہ اداروں کے درمیان ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔

محکمہ داخلہ کی سفارشات:

محکمہ داخلہ نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اینڈ ویلفیئر بیورو وغیرہ بچوں کو مجرموں سے بچانے کے لیے اہم اسٹیک ہولڈرز ہیں اور انہیں مزید حساس بنا کر موجودہ صورتحال کے پیش نظر مزید فعال ہونے کی ہدایت کی جا سکتی ہے۔

رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ ’بیورو کے پاس پیشہ ور افراد اور متحرک اہلکاروں کی ایک باہمت ٹیم ہونی چاہیے جس میں بچوں کے تحفظ کے افسران، ماہر نفسیات، قانونی افسران اور ڈاکٹرز شامل ہوں تاکہ بچوں کو زیادتیوں سے بچایا اور متاثرین کی بحالی کی جاسکے‘۔

محکمہ داخلہ نے بچوں کے ساتھ کام کرنے والے پیشہ ور افراد جیسے اساتذہ، صحت کی سہولیات فراہم کرنے والے، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں اور سماجی کارکنوں کے لیے تربیتی پروگرام شروع کرنے کی تجویز بھی پیش کی تاکہ بدسلوکی کی علامات کی نشاندہی کرنے، حساس طریقے سے جواب دینے اور مناسب حمایت فراہم کرنے میں ان کی مہارت کو بڑھایا جا سکے۔

ساتھ ہی اس میں گھریلو تشدد کی ہیلپ لائن 1099 کو محکمہ پولیس کے ساتھ منسلک کرتے ہوئے صوبائی سطح پر تمام ہیلپ لائنوں کے درمیان مؤثر ہم آہنگی کی سفارش کی گئی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ ’حکومت کو بچوں سے زیادتی کے مقدمات کے لیے خصوصی عدالتیں قائم کرنی چاہئیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتی نظام کی صلاحیت اور تربیت کو بڑھانا چاہیے تاکہ ایسے مقدمات کو مؤثر طریقے سے نمٹا جا سکے۔‘

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں