بجلی کی مہنگی لاگت کے سلسلے میں ایل این جی نے فرنس آئل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا
حکومت نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ درآمد شدہ مائع قدرتی گیس (ایل این جی) ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے سب سے مہنگا ایندھن بن گیا ہے، یہاں تک کہ اس نے فرنس آئل کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کی جگہ لینے کے لیے تقریباً ایک دہائی قبل کئی ارب ڈالر کا ایل این جی انفراسٹرکچر قائم کیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے ہر مہینے کے لیے توانائی کی خریداری کے حوالہ جاتی نرخ مقرر کرنے کے فیصلے میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے بتایا کہ 6.94 روپے فی یونٹ کی لاگت کے ساتھ پن بجلی نیشنل گرڈ کو بجلی کی فراہمی کا سب سے سستا ذریعہ بنی ہوئی ہے۔
یہ درآمدی ایل این جی سے پیدا ہونے والی بجلی کی 51.42 روپے فی یونٹ لاگت سے بہت سستی ہے، اس کے بعد فرنس آئل سے بجلی کی پیداوار کا تخمینہ 48.56 روپے فی یونٹ ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے اپنے گزشتہ دور (18-2013) میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کے جو معاہدے کیے وہ ری گیسیفائیڈ مائع قدرتی گیس (آر ایل این جی) اور کوئلے سے متعلق تھے۔
نیز جو کابینہ ڈویژن کے تحت کام کرنے والے پاور ریگولیٹر نے ریکارڈ کیا کہ بجلی کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کے پیچھے بڑی وجہ فکسڈ چارجز ہیں جو کل لاگت کا 71 فیصد ہیں اور اس میں شرح تبادلہ کے نقصانات بھی شامل ہیں جبکہ توانائی کی لاگت بجلی کی مجموعی خریداری کی قیمت کا تقریباً 29 فیصد ہے۔
باوجود اس حقیقت کے کہ ملک میں بجلی کی مجموعی فراہمی کا ایک بڑا حصہ، تقریباً 63 فیصد، مقامی وسائل پر مبنی ہے۔
ریگولیٹر کے مطابق توانائی کی خریداری کی حوالہ جاتی قیمت کا تعین انتہائی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہ براہِ راست صارفین کے پاس جاتا ہے اور صارف کے لیے حتمی ٹیرف کا ایک بڑا جزو (90 فیصد) ہے۔
مستقبل کی تمام ماہانہ فیول چارجز ایڈجسٹمنٹ (ایف سی ایز) اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس (کیو ٹی ایز) کو متوقع نوٹیفائیڈ شدہ توانائی خریدنے کی حوالہ جاتی قیمت کی بنیاد پر تیار کیا جاتا ہے۔
ریگولیٹر نے کہا کہ رواں سال کے دوران بجلی کی مجموعی پیداوار کا تقریباً 30 فیصد پانی سے، 17 فیصد مقامی کوئلے سے، 12 فیصد درآمدی کوئلے سے، 18 فیصد نیوکلیئر سے، 10 فیصد مقامی گیس سے، 5 فیصد آر ایل این جی سے، 2 فیصد فرنس آئل سے اور بقیہ تقریباً 6 فیصد پیداوار قابل تجدید ذرائع جیسے ہوا، سورج کی روشنی اور بیگاس کے ذریعے بنائے جانے کی توقع ہے۔
نیپرا نے کہا کہ ’پیداواری مرکب نے کافی بہتری دکھائی ہے، جس میں تقریباً 63 فیصد مقامی وسائل سے اور تقریباً 18 فیصد کی کم لاگت والے جوہری ذرائع سے بنانے کی پیش گوئی کی گئی ہے‘۔
آر ایل این جی اور فرنس آئل کے بعد تیسری سب سے مہنگی پیداوار 40.54 روپے فی یونٹ ہے جو درآمدی کوئلے سے ہوگی، اس کے بعد ہوا سے پیدا کی جانے والی بجلی (33.64 روپے) اور پھر ایران سے (24.73 روپے) درآمدہ شدہ بجلی ہوگی۔
بجلی کا چھٹا سب سے مہنگا ذریعہ مقامی کوئلہ (23.97 روپے فی یونٹ) ہے، اس کے بعد جوہری ایندھن (18.38 روپے) اور شمسی توانائی (15.04 روپے) ہے۔
اس وقت بجلی کے اگلے تین سستے ذرائع بیگاس (14.83 روپے فی یونٹ)، مقامی گیس (13.02 روپے) اور سب سے زیادہ سستی پن بجلی 6.94 روپے ہیں۔
سال کے دوران متوقع حوالہ جات کے سلسلے میں بجلی کی حقیقی خریداری کی قیمت میں تغیرات ماہانہ فیول کاسٹ ایڈجسٹمنٹس اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹس کے ذریعے پورے کیے جاتے ہیں۔
ریگولیٹر نے کہا کہ حکومت نے مالی سال (24-2023) کے لیے متوقع پیداواری صلاحیت کے توسیعی منصوبے کے تحت قومی گرڈ کے لیے بجلی کی پیداوار میں اضافے کا تخمینہ سال 23-2022 کے منصوبے کے مقابلے 4.7 فیصد لگایا تھا لیکن اصل پیداوار گزشتہ مالی سال کی متوقع پیداوار کے مقابلے میں تقریباً 9 فیصد کم رہی۔