پشاور: حیات آباد کے علاقے میں ایف سی کی گاڑی کے قریب دھماکا، 6 اہلکار زخمی

اپ ڈیٹ 18 جولائ 2023
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے حدثہ کو سیل کردیا تھا— فوٹو: اے ایف پی
دھماکے کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے جائے حدثہ کو سیل کردیا تھا— فوٹو: اے ایف پی

خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے علاقے حیات آباد میں فرنٹیئر کور (ایف سی) کے قافلے کے قریب دھماکے میں کم از کم 6 افراد زخمی ہو گئے۔

ایس پی کینٹ وقاص رفیع نے جائے وقوع کے قریب میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حملے میں حیات آباد فیز 6 سے گزرنے والے فرنٹیئر کور کے قافلے کو نشانہ بنایا گیا۔

ٹی وی پر نشر ہونے والی فوٹیج میں لوگوں کو دھماکے کے بعد جائے وقوع پر جمع ہوتے دیکھا جاسکتا ہے، جبکہ اس سے کچھ قافلے پر حملے کا نشانہ بننے والی فرنٹیئر کور کی گاڑی بھی موجود تھی۔

ایس پی وقاص رفیع نے ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی کو تصدیق کی کہ حملے میں 6 افراد زخمی ہوئے جنہیں قریبی ہسپتال منتقل کردیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بم ڈسپوزل اسکواڈ جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کر رہا ہے تاکہ دھماکے کی نوعیت کا پتا چلایا جا سکے۔

وقاص رفیع نے کہا کہ ہم اس معاملے کی تہہ تک جائیں گے اور واقعے میں ملوث عناصر کو منظر عام پر لائیں گے۔

اس کے علاوہ حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے میڈیکل ڈائریکٹر پروفیسر شہزاد اکبر نے خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کو تصدیق کی کہ ہسپتال میں دھماکے میں زخمی ہونے والے دو مریضوں کو لایا گیا جن کی حالت خطرے سے باہر ہے۔

انہوں نے کہا کہ دھماکے میں زخمی ہونے والے بقیہ افراد کو کمبائنڈ ملٹری ہسپتال (سی ایم ایچ) لے جایا گیا۔

دوسری جانب وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے دھماکے کی پرزور الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے منصوبہ ساز قانون کی گرفت سے بچ نہیں سکتے۔

پیپلز پارٹی کی جانب سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر جاری بیان کے مطابق بلاول نے دھماکے میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحتیابی کے لیے بھی دعا کی۔

پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے بھی دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد اور ان کے سہولت کار سزا سے نہیں بچ سکتے۔

سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے بھی دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گرد حملوں میں اضافہ پریشان کن ہے۔

انہوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ سیکیورٹی فورسز کو تقریباً روزانہ کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے اور وہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔

واضح رہے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے پشاور اور خیبر پختونخوا علاقے دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں جو عموماً سیکیورٹی فورسز کی گاڑیوں اور چوکیوں کو نشانہ بناتے ہیں۔

20 جون کو خیبر پختونخوا کے ضلع شمالی وزیرستان میں بم دھماکے کے نتیجے میں پاک فوج کے 2 جوان شہید ہوگئے تھے۔

دہشت گردی کی کارروائیوں سے متعلق ایک رپورٹ کے مطابق جنوری 2023 میں بدترین واقعات پیش آئے اور 2018 کے بعد سب سے زیادہ جانی نقصان ہوا، جہاں 134 افراد کی جان چلی گئی۔

اس سلسلے میں سب سے بڑا حملہ جنوری میں کیا گیا تھا جہاں پشاور کی پولیس لائنز کی مسجد میں دلخراش واقعے میں 100 سے زائد افراد جاں بحق ہوگئے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں