وفاقی حکومت نے مسابقت یا قیمت کی دریافت کے لیے کسی بولی کے بغیر ایسٹ وارف کراچی پورٹ پر بلک اور جنرل کارگو ٹرمینل اور اس سے منسلک انفرااسٹرکچر کی ’انٹر گورنمنٹل کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022‘ کے تحت بین الحکومتی معاہدے کے ذریعے ’ابوظبی پورٹس‘ کے حوالے کرنے کے لیے فریم ورک معاہدے کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق اس فیصلے پر عمل درآمد کے لیے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کی سربراہی میں کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے گزشتہ روز متحدہ عرب امارات کے ساتھ فریم ورک معاہدے پر بات چیت کی اجازت دی اور ایک کمیٹی تشکیل دی تھی۔

کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے بین الحکومتی کمرشل ٹرانزیکشن ایکٹ 2022 کے تحت کراچی پورٹ پر ایسٹ وارف میں بلک اور جنرل کارگو ٹرمینل کی پیش رفت کے لیے تعاون پر متحدہ عرب امارات کی حکومت کے ساتھ بین الحکومتی معاہدے کے حوالے سے وزارت بحری امور کی ایک سمری پر غور کیا۔

سرکاری بیان کے مطابق کمیٹی نے وفاقی کابینہ سے تصدیق کے لیے بین الحکومتی مسودہ فریم ورک معاہدے کی منظوری دی۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی) تین راستوں پر مشتمل ہے جن میں مشرق، مغرب اور جنوب شامل ہیں جہاں 5 ٹرمینلز ہیں۔

تین ڈاکنگ ٹرمینلز ٹرمینل آپریٹنگ کمپنیوں کو آؤٹ سورس کیے جاتے ہیں جبکہ باقی دو یعنی آئل ٹرمینل اور کلین بلک کارگو ٹرمینل فی الحال کے پی ٹی کے ماتحت چلائے جاتے ہیں۔

کلین بلک کارگو ٹرمینل ورلڈ بینک سے قرض لینے کے بعد تعمیرکرکے 2016 میں کراچی پورٹ ٹرسٹ کے حوالے کیا گیا تھا۔

بین الاقوامی بولی کے لیے جانے کا فیصلہ کیا گیا اور کنسلٹنٹس نے ٹینڈر دستاویزات کو حتمی شکل دی، ابوظبی پورٹس نے متحدہ عرب امارات کے سفیر کے ذریعے حکومت پاکستان اور کے پی ٹی سے رابطہ کیا اور ایسٹ وارف پر دو ٹرمینلز کے آپریشن میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔

کے پی ٹی نے مزید بتایا کہ آئل ٹرمینل اور کلین بلک کارگو ٹرمینل کی مجموعی آمدنی 3.1 ارب روپے سالانہ ہے اور قرض کی ادائیگی 67 کروڑ 50 لاکھ روپے کے آپریٹنگ اخراجات کے علاوہ 3 ارب روپے ہے، کے پی ٹی کو 57 کروڑ 50 لاکھ روپے کا خسارہ ہے۔

وزارت خارجہ 2022 سے قطر کو آئل ٹرمینل اور کلین بلک کارگو ٹرمینل کی پیشکش کے لیے کراچی پورٹ ٹرسٹ کی آؤٹ سورسنگ کی کوششوں کی پیشرفت کا بھی سراغ لگا رہی ہے۔

مئی میں خارجہ امور پر وزیراعظم کے معاون خصوصی نے بتایا تھا کہ آئل ٹرمینل اور کلین بلک کارگو ٹرمینل کی سعودی عرب کو پیش کش کی جا سکتی ہے۔

کراچی پورٹ ٹرسٹ نے بھی اپنے طور پر کیو ٹرمینل سے رابطہ کیا جس نے بولی میں حصہ لینے کی حد تک دلچسپی ظاہر کی تھی۔

بیک وقت وزارت خارجہ نے ایسٹ وارف میں بلک اور جنرل کارگو ٹرمینل کی ترقی کے لیے متحدہ عرب امارات اور پاکستان کی حکومتوں کے درمیان بین الحکومتی معاہدے کو منسلک کرنے والے متحدہ عرب امارات کے سفیر کا خط بھیجا گیا۔

ایسی تجویز 19 جولائی کو کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین کے اجلاس میں پیش کی گئی تھی۔

کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین نے جی ٹو جی معاہدے کے لیے ایک فریم ورک ایگریمنٹ کمیٹی تشکیل دی جس میں سیکریٹری قانون، بحری امور ، خارجہ امور اور وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکریٹریز شامل ہوئے۔

کمیٹی کا اجلاس 20 جولائی کو ہوا تھا جس میں متحدہ عرب امارات کے سفارت خانے کے ڈپٹی ہیڈ آف مشن راشد عبدالرحمٰن آل علی کی قیادت میں متحدہ عرب امارات کی ٹیم نے شرکت کی تھی۔

شرکا نے وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری کے لیے ترمیمی فریم ورک معاہدے پر اتفاق کیا تھا۔

گزشتہ ہفتے کابینہ کمیٹی برائے بین الحکومتی تجارتی لین دین کی ہدایات پر کے پی ٹی نے تشخیص اور قیمت کی دریافت کے لیے کچھ پیمانوں کی بھی تجویز پیش کی تھی جس میں معاہدے کی شرائط، ٹرمینل کی تعمیراتی لاگت، ٹرمینل کی زندگی کا دورانیہ، کارگو ہینڈلنگ کی زیادہ سے زیادہ گنجائش، کوے وال کی لمبائی، فی ٹن رائلٹی، زمین کا کرایہ فی میٹر، اسٹوریج چارجز، پیشگی ادائیگی اور سرمایہ کاری کی مقدار شامل ہیں۔

ایک بے نام کمیٹی بندرگاہ کی سہولیات کی قیمتوں کی دریافت پر بات چیت کرے گی، تاہم کچھ اراکین نے سوال کیا کہ کیا ابوظبی پورٹ درحقیقت متحدہ عرب امارات کی حکومت کا ادارہ ہے۔

لہٰذا وزارت خارجہ امور نے ابوظبی میں ڈپٹی ہیڈ مشن کے ساتھ مشغول ہونے کے بعد اطلاع دی کہ ابوظبی پورٹ گروپ، ابوظبی ڈیولپمنٹ ہولڈنگ کمپنی کے تحت کام کرتا ہے جو کہ متحدہ عرب امارات کی حکومت کا ادارہ ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں