لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

میں اور میرے چند ساتھی پنجاب اور سندھ کے کچھ اسکولوں میں کام کر رہے ہیں تاکہ یہ سمجھ سکیں کہ مڈل اسکول کی جماعتوں میں انگریزی کی کلاسوں کے دوران کیا ہوتا ہے۔ ہم یہ دیکھنا اور سمجھنا چاہتے تھے کہ ان اسکولوں میں انگریزی کس طرح پڑھائی جارہی ہے تاکہ اندازہ ہوسکے کہ طلبہ اسے سیکھنے میں دشواری کا سامنا کیوں کرتے ہیں۔

انگریزی زبان سیکھنے کے علاوہ بھی ہمارے سامنے چند نکات آئے۔ چھوٹی جماعتوں کے مشاہدات، اساتذہ اور طلبہ کے ساتھ انٹرویوز میں جو جملہ سب سے زیادہ سامنے آیا وہ تھا ’یاد کرنا‘۔ اساتذہ نے طلبہ کو اسباق کو یاد کروانے کے بہترین طریقوں کے حوالے سے بات کی۔ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے طلبہ وہ تھے جو سبق یاد کرتے تھےجبکہ خراب کارکردگی دکھانے والے طلبہ کے پاس یا تو وقت نہیں ہوتا یا وہ سبق کو یاد کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ طلبہ کے ٹیسٹ بھی یاد کی ہوئی چیز کو لکھنے کے حوالے سے ہوتے تھے اس لیے یاد رکھنا اہم تھا۔ امتحان کی تیاری بھی دراصل چیزوں کو یاد کرنا ہی تھا۔

ایک عام سبق کچھ اس طرح کا تھا کہ استانی جماعت میں آتی ہیں اور وہ پیراگراف یا کہانی پڑھتی ہیں جو کہ اس دن کا سبق ہوتا ہے۔ اس کے بعد وہ پیراگراف کو عام طور پر اردو یا مقامی زبان میں لفظ بہ لفظ، جملہ بہ جملہ اور پیراگراف میں شامل مشکل الفاظ کے معنی سمجھاتی ہیں۔ اس کے بعد طلبہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ان معنی کو دوبارہ بیان کریں جن کی انہیں وضاحت کی گئی تھی۔ پھر انہیں سبق دہرانے کا کہا جاتا ہے۔ استانی سبق کے اختتام پر سوالات کی مشق بھی کرواتی ہیں۔ امتحانات بھی ان ہی سوالات پر منبی ہوتے ہیں۔ اس وقت تک ان سوالات کو دہرایا جاتا ہے جب تک کہ طلبہ ان تمام سوالات کے جوابات نہ دے دیں جو ممکنہ طور پر سبق کے حوالے سے پوچھے جا سکتے ہیں۔

اگلے سبق یا چند اسباق کے بعد ایک ٹیسٹ لیاجاتا ہے کہ آیا طلبہ نے سبق اچھی طرح یاد کیا ہے یا نہیں۔ پھر یہی سبق بار بار ٹیسٹ اور امتحانات کے دوران دہرایا جائے گا۔

اس طرح رٹے لگوانے سے کوئی بھی شخص نئی زبان نہیں سیکھ سکتا۔ زبان سیکھنے کے لیے اس زبان کو سننے اور بولنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ عام طور پر لکھنے سے پہلے سننے، پڑھنے اور بولنے کا نمبر آتا ہے۔ کچھ پیراگراف اور کچھ الفاظ کے معنٰی یاد رکھنے اور اس زبان میں چند جملے لکھنے سے ہم کوئی زبان نہیں سیکھ سکتے۔

اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ رٹہ لگوانا پڑھانے اور سکھانے کا کوئی اچھا طریقہ نہیں ہے۔ اگر مقصد ایک زبان سیکھنا ہو نہ کہ صرف مخصوص اسباق کو یاد کرنا اور دہرانا، تو ہمیں ایک مختلف تعلیمی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمیں لکھنے سے پہلے پڑھنے، سننے اور بولنے پر بہت زیادہ زور دینا ہوگا۔ ہمارے تعلیمی نظام میں ابتدائی درجات میں بھی تحریر کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ سوچیں کہ آپ نے بڑے ہوتے ہوئے زبان کیسے سیکھی تھی۔ اگر بچوں کی تعلیم کے ابتدائی سالوں میں ہی زبانی بات چیت پر خصوصی توجہ دے سکیں تو یہ ہمارے بچوں کے لیے معاون ثابت ہوگا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ تعلیم شعور کا نام ہے۔ اس کا مطلب غور و فکر کرنا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس کے لیے یاد کرنا ضروری ہوتا ہے لیکن یہ تعلیم کی حد ہر گز نہیں ہے۔ دراصل تعلیم کی حد تفہیم ہے اور کسی چیز کو سمجھنے کے لیے غور و فکر ضروری ہونا چاہیے۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سا مضمون پڑھایا جارہا ہے، چاہے کوئی زبان ہو، ریاضی یا پھر سائنس کا کوئی مضمون، چیزیں جیسی ہیں ویسی کیوں ہیں، اس بات کا جواب تلاش کرنا ہی تعلیم ہے۔ تعلیم کو صرف یاد کرنے تک محدود کرنے سے حقیقی تعلیم حاصل نہیں ہوتی۔

اس بات سے قطع نظر کہ لوگ تعلیم کی کیا تعریف کرتے ہیں، سمجھ بوجھ، تنقیدی سوچ اور اپنے استدلال کو استعمال کرنے اور آزاد اور خود مختار ہونے کی صلاحیت تعلیم کی ہر تعریف میں کلیدی اور لازمی عناصر ہوں گے۔ تعلیم میں غوروفکر، استدلال اور وجوہات جاننے کا ایک خاص مقام ہے۔ ایک تعلیم یافتہ شخص دلائل کی بنیاد پر اپنی سوچ، عمل اور اپنے وجود کے حوالے سے متحرک رہتا ہے۔

اگرچہ یاد کرنا اور دہرانا تعلیمی طریقہ کار میں شامل کیے جاسکتے ہیں لیکن اگر پورا تعلیمی طریقہ کار ہی رٹے پر مبنی ہو تو یہ غلط ہے۔ اس نظام سے ایسے لوگ تیار ہوں گے جو اپنے طور پر سوچنے کی صلاحیت سے محروم ہوں گے اور وہ استدلال اور وجوہات کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے قابل نہیں ہوں گے۔ اس سے ذہنی غلام پیدا ہوں گے جو خود مختار افراد کے طور پر کبھی ترقی نہیں کر پائیں گے۔

فلسفہ نگار کانٹ نے انسانوں کو چیلنج کیا تھا کہ ’اپنے شعور کو استعمال کرنے کا حوصلہ رکھیں‘۔ یہ ان کی جانب سے دیے جانے والے روشن خیالی کے اہم اسباق میں سے ایک تھا۔ لیکن کسی میں اپنی ذہانت اور شعور کو استعمال کرنے کی ہمت کیسے آئے گی جب ہمارا تعلیمی نظام ہی اس میں رکاوٹ بنے گا۔ ہمارا تعلیمی نظام لوگوں کو عقل کے استعمال کی تعلیم نہیں دیتا اور بچوں کے اعتماد اور صلاحیتوں کو کمزور کرتا ہے اور وہ یوں اپنے استدلال اور فہم پر بھروسہ نہیں کرپاتے۔

تصور کریں کہ آپ آٹھویں جماعت میں ہیں اور آپ یہ دیکھتے ہیں کہ آپ کی ریاضی کی کتاب میں کوئی غلطی ہے، کوئی سوال غلط پرنٹ ہوا ہے یا پھر آپ کی درسی کتاب میں سوالات کےجوابات غلط درج ہیں۔ یہی سوال امتحان میں آجاتا ہے اور آپ کو معلوم ہے کہ اس سوال کو کیسے حل کرنا ہے۔ ایسے میں آپ کیا کریں گے؟ کیا آپ وہ جواب لکھیں گے جو کتاب میں درج ہے یا پھر آپ وہ جواب لکھیں گے جو حقیقتاً درست ہے؟

میرے دوست نے مجھے ایک واقعہ بتایا۔ اس نے کہا کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ جواب غلط ہے اس نے امتحان میں وہی جواب لکھا جو کتاب میں موجود تھا اور اسے پورے نمبر ملے۔ میرے ایک اور دوست نے سوال کو درست طریقے سے حل کیا اور سوال کا صحیح جواب لکھا لیکن اسے اس سوال پر صفر دیا گیا۔ رٹہ لگانے کی روایت کے ہمارے تعلیمی نظام پر یہ اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

جب یہی طلبہ جامعات اور عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تب ہمیں رٹہ لگانے کی اسی روایت کے نتائج نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی شخصیت کی تشکیل میں مشکلات کا سامنا کرتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں دوسروں کی توثیق کے منتظر رہتے ہیں، وہ قیادت کے بجائے دوسروں کی پیروی کرتے ہیں۔ ہمیں ایسے نوجوان درکار نہیں کیونکہ انہیں تو ہمارے مستقبل کا رہنما بننا ہے۔

تعلیم کے شعبے میں یکساں نصابِ تعلیم یا اس طرح کی کسی بھی تبدیلی سے زیادہ، پڑھانے کے طریقہ کار میں تبدیلی کرنا ضروری ہے۔ اگرچہ یہ دشوار کام ہے لیکن ملک کی اگلی نسل کی تعمیر میں یہ ہمارے لیے انتہائی منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے۔


یہ مضمون 21 جولائی 2023ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں