’کالعدم ٹی ٹی پی اثر و رسوخ بڑھانے کیلئے القاعدہ کے ساتھ الحاق کی کوشش کرسکتی ہے‘

اپ ڈیٹ 29 جولائ 2023
کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں واقع علاقوں پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی خواہشمند ہے— فائل فوٹو: ڈان
کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں واقع علاقوں پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی خواہشمند ہے— فائل فوٹو: ڈان

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پیش کی گئی ایک مانیٹرنگ رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) القاعدہ کے ساتھ الحاق کی کوشش کر سکتی ہے تاکہ وہ ایک ایسی تنظیم تشکیل دے جو جنوبی ایشیا میں سرگرم تمام عسکریت پسند گروہوں کی سرپرستی کرسکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس مانیٹرنگ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ کے کچھ رکن ممالک نے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی ایک ایسا شیلٹر فراہم کر سکتی ہے جس کے تحت بہت سے غیر ملکی عسکریت پسند گروہ متحد ہوکر کام کریں۔

دنیا بھر میں دہشت گردی کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والی اقوام متحدہ کی ایک کمیٹی کی جانب سے مرتب کردہ اِس رپورٹ میں پاکستان کی اس شکایت کی تائید کی گئی ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کے برسراقتدار ہونے کے بعد سے افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے۔

رپورٹ میں خبردار کیا گیا کہ ایک رکن ریاست نے القاعدہ اور کالعدم ٹی ٹی پی کے انضمام کے امکان کی نشاندہی کی ہے، اس کا اندازہ ہےکہ پاکستان کے اندر بڑھتے ہوئے حملوں کے حوالے سے کالعدم ٹی ٹی پی کو القاعدہ رہنمائی فراہم کر رہی ہے۔

دستاویز کے مطابق افغانستان کے صوبہ کنڑ میں مختلف دہشت گرد گروہوں کے زیرِ انتظام تربیتی کیمپوں کو کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو بھی استعمال کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ کئی منقسم گروہوں کے ساتھ دوبارہ اتحاد اور افغانستان میں افغان طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی پاکستان میں واقع علاقوں پر دوبارہ کنٹرول قائم کرنے کی خواہشمند ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ کہ کالعدم ٹی ٹی پی کی توجہ سرحدی علاقوں میں اہم اہداف اور شہری علاقوں میں معمولی اہداف پر مرکوز رہی ہے، کالعدم ٹی ٹی پی کی صلاحیت کا اندازہ اس کے عزائم سے مماثل نہ ہونے سے کیا جاتا ہے کیونکہ اس کا علاقے پر کنٹرول نہیں ہے اور قبائلی علاقوں میں اس کی مقبولیت کا فقدان ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے رپورٹ میں کہا کہ جون میں کالعدم ٹی ٹی پی کے بعض عناصر کو سرحدی علاقے سے دور منتقل کر دیا گیا تھا، یہ حکومتِ پاکستان کے دباؤ پر افغان طالبان کی جانب سے اس گروہ کو لگام دینے کی کوششوں کا حصہ تھا۔

رکن ممالک نے اقوام متحدہ کے مبصرین کو بتایا کہ انہیں اس بات پر تشویش ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی اگر افغانستان میں آزادانہ طور پر فعال رہتی ہے تو یہ علاقائی خطرہ بن سکتی ہے۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے اپنی یہ رپورٹ 25 جولائی کو سلامتی کونسل کو پیش کی، اس میں روشنی ڈالی گئی کہ اگست 2021 میں افغان طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سے کالعدم ٹی ٹی پی کس طرح افغانستان میں زور پکڑ رہی ہے اور کس طرح دیگر دہشت گرد تنظیمیں جنگ زدہ ملک میں کام کرنے کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کا استعمال کر رہی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ القاعدہ اور اس سے منسلک گروہوں (بشمول کالعدم ٹی ٹی پی اور داعش-خراسان) کے ارکان کے درمیان فرق بعض اوقات کافی حد تک دھندلا جاتا ہے، بعض اوقات یہ افراد ایک سے زیادہ گروہوں کے ساتھ خود کو جوڑتے ہیں اور لوگوں میں غالب طاقت کی جانب متوجہ ہونے کا رجحان ہوتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ یہ اطلاعات بڑھتی جا رہی ہیں کہ دوسرے کالعدم دہشت گرد گروہ افغان طالبان کے کنٹرول سے بچنے کے لیے کالعدم ٹی ٹی پی کی حمایت کر رہے ہیں۔

رپورٹ میں افغانستان کو دہشت گردی کے حوالے سے عالمی سطح پر نمایاں مقام کے طور پر بیان کیا گیا ہے جہاں تقریباً 20 دہشت گرد گروہ ملک میں کام کر رہے ہیں، تمام خطوں میں اپنا اثر و رسوخ پھیلا رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کی کمیٹی نے مشاہدہ کیا کہ طالبان اور القاعدہ کے درمیان تعلقات اب بھی قریبی اور نمایاں ہیں، القاعدہ افغانستان میں خفیہ طور پر اس بیانیے کو فروغ دینے میں مدد کرتی ہے کہ طالبان افغان سرزمین کو دہشت گردی کے مقاصد کے لیے استعمال نہ کرنے کے معاہدوں کی تعمیل کرتے ہیں۔

افغان طالبان حکام کے اعلیٰ عہدے داروں کی سرپرستی میں القاعدہ کے ارکان قانون نافذ کرنے والے اداروں اور انتظامی اداروں میں دراندازی کرتے ہیں، جس سے ملک بھر میں پھیلے ہوئے القاعدہ سیلز کی حفاظت کو یقینی بنایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں تخمینہ ظاہر کیا گیا ہے کہ افغانستان میں القاعدہ کی مرکزی باڈی 30 سے 60 ارکان پر مبنی ہے جبکہ ملک میں القاعدہ کے تمام جنگجوؤں کی تعداد 400 بتائی گئی ہے جو ان کے خاندانوں میں شامل افراد کے ساتھ 2 ہزار تک پہنچ گئی ہے، واضح رہے کہ برصغیر پاک و ہند میں القاعدہ کے تقریباً 200 جنگجو تھے۔

دوسری جانب افغان طالبان نے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو غلط قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے، افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے گزشتہ روز ایک ٹوئٹ میں کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی رپورٹ درست نہیں ہے، القاعدہ کی افغانستان میں کوئی موجودگی نہیں ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں