کرپشن کیس: پرویز الہٰی کا 21 اگست تک جسمانی ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 15 اگست 2023
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں پرویز الہٰی کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی — فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
نیب پراسیکیوٹر نے عدالت میں پرویز الہٰی کے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی — فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی

راولپنڈی کی احتساب عدالت نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی درخواست پر سرکاری ٹھیکوں میں گھپلوں اور کِک بیکس لینے کے مقدمے میں سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور صدر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) چوہدری پرویز الہٰی کا 21 گست تک جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

نیب حکام نے سابق وزیر اعلیٰ پرویز الہٰی کو احتساب عدالت پیش کیا جہاں جج زبیر شہزاد کیانی نے نیب کی درخواست پر سماعت کی۔

سماعت میں نیب نے پی ٹی آئی کے صدر پرویز الہیٰ کا جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

پرویز الہیٰ کے وکیل امجد پرویز نے ان سے مشاورت کی اجازت طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’دلائل سے پہلے میں اپنے مؤکل سے 5 منٹ بات کرنا چاہتا ہوں‘، اس پر عدالت نے وکیل کو پرویز الہٰی سے مشاورت کی اجازت دے دی۔

نیب کی جانب سے اسپیشل پراسیکیوٹر وارث علی جنجوعہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اس کیس میں 4 لوگ پہلے ہی گرفتار ہیں، پرویز الہٰی کو کل گرفتار کر کے آج احتساب عدالت میں پیش کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ پرویز الہٰی نے بطور وزیرِ اعلیٰ صرف گجرات کے لیے 72 ارب روپے کے ڈیولپمنٹ پیکجز دیے، 200 منصوبوں کی لسٹ بنائی گئی جبکہ قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے فاسٹ ٹریک پر منصوبوں کی منظوری بھی دی گئی، مونس الہٰی نے میٹنگ کرکے کک بیکس کے شیئر طے کیے، کام شروع ہونے سے قبل رقم جاری ہونا شروع ہوگئی تھی جوکہ قانون کی خلاف ورزی ہے، نیب کے پاس ان سب باتوں کے ثبوت موجود ہیں۔

اس پر پرویز الہٰی کے وکیل امجد پرویز نے استدعا کی کہ پرویز الہٰی کی گرفتاری کے خلاف سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں مقدمات زیرِ سماعت ہیں، اس لیے عدالت پیر تک پرویز الہٰی کا جسمانی ریمانڈ دے دے تاکہ تب تک سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ بھی آجائے۔

نیب پراسیکیوٹر نے عدالت سے 14 روزہ جسمانی ریمانڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ جسمانی ریمانڈ کتنے دن کا دینا ہے یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔

دونوں فریقین کے دلائل سن کر احتساب عدالت نے پرویز الہٰی کا 21 اگست تک جسمانی ریمانڈ منظور کرلیا۔

واضح رہے کہ گزشتہ روز (14 اگست کو) نیب نے سابق وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو اڈیالہ جیل سے رہا ہوتے ہی آمدن سے زائد اثاثوں اور سرکاری ٹھیکوں میں مبینہ گھپلوں کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرلیا تھا، جبکہ راولپنڈی کی مقامی عدالت نے نیب کی درخواست منظور کرتے ہوئے چوہدری پرویز الہٰی کا راہداری ریمانڈ منظور کیا تھا۔

پرویز الہٰی کی گرفتاری اور مقدمات

پرویز الہٰی پی ٹی آئی کے ان متعدد رہنماؤں اور کارکنوں میں شامل ہیں جنہیں 9 مئی کو ہونے والے ہنگاموں کے بعد پی ٹی آئی کی قیادت کے خلاف ریاستی کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔

انہیں پہلی بار یکم جون کو اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ (اے سی ای) نے ان کی لاہور رہائش گاہ کے باہر سے ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر رشوت لینے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔

اگلے ہی روز لاہور کی ایک عدالت نے انہیں مقدمے سے ڈسچارج کر دیا تھا لیکن اے سی ای نے انہیں گوجرانوالہ کے علاقے میں درج اسی طرح کے ایک مقدمے میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

اس کے بعد گوجرانوالہ کی ایک عدالت نے انہیں 3 جون کو فنڈز کے غبن سے متعلق بدعنوانی کے دو مقدمات میں بری کر دیا تھا۔

مقدمے سے ڈسچارج ہونے کے باوجود اینٹی کرپشن اسٹیبلمشنٹ نے پھر پرویز الہٰی کو پنجاب اسمبلی میں ’غیر قانونی بھرتیوں‘ کے الزام میں دوبارہ گرفتار کر لیا۔

9 جون کو ایک خصوصی انسداد بدعنوانی عدالت نے اے سی ای کو غیر قانونی تعیناتیوں کے کیس کا ریکارڈ پیش کرنے کا ’آخری موقع‘ دیا تھا۔

اسی روز قومی احتساب بیورو حرکت میں آیا اور گجرات اور منڈی بہاؤالدین میں ترقیاتی منصوبوں میں مبینہ طور پر غبن میں ملوث ہونے پر صدر پی ٹی آئی کے خلاف ایک اور انکوائری شروع کردی گئی۔

12 جون کو سیشن عدالت نے غبن کیس میں جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پرویز الہٰی کی بریت کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا تھا جس کے اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کے مذکورہ حکم کو معطل کردیا اور جوڈیشل مجسٹریٹ نے انہیں دوبارہ جوڈیشل لاک اپ بھیج دیا۔

20 جون کو پرویز الہٰی نے بالآخر لاہور کی انسداد بدعنوانی عدالت سے ریلیف حاصل کر لیا لیکن جیل سے رہا نہ ہو سکے کیونکہ ان کی رہائی کے احکامات جیل انتظامیہ کو نہیں پہنچائے گئے تھے۔

اسی روز ایف آئی اے نے ان پر، ان کے بیٹے مونس الہٰی اور تین دیگر افراد کے خلاف منی لانڈرنگ کے الزام میں مقدمہ درج کیا۔

جس کے اگلے روز ایف آئی اے نے انہیں جیل سے حراست میں لے لیا اور منی لانڈرنگ کیس میں انہیں روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا۔

24 جون کو لاہور کی اسپیشل کورٹ سینٹرل نے سابق وزیراعلیٰ کی منی لانڈرنگ کیس ضمانت منظورکی تھی۔

تاہم 26 جون کو لاہور کی ایک ضلعی عدالت نے منی لانڈرنگ کیس کے سلسلے میں انہیں دوبارہ 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا، جس کے فوراً بعد ایف آئی اے نے انہیں کیمپ جیل کے باہر سے گرفتار کیا۔

پھر 4 جولائی کو لاہور کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے پرویز الہٰی کی بعد از گرفتاری ضمانت کی درخواست کو ان کے گھر پر چھاپہ مارنے والی پولیس ٹیم پر حملہ کرنے کے کیس میں ناقابل سماعت قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا۔

تقریباً ایک ہفتے بعد لاہور ہائی کورٹ نے انسپکٹر جنرل جیل خانہ جات کے آئی جی میاں فاروق کو ہدایت کی کہ وہ جیل میں فراہم کی جانے والی بنیادی سہولیات کے فقدان سے متعلق پی ٹی آئی صدر کی شکایات کا ازالہ کریں۔

12 جولائی کو لاہور کی سیشن عدالت نے غیر وضاحتی بینکنگ ٹرانزیکشنز کے کیس میں پرویز الہٰی کے جسمانی ریمانڈ سے انکار کے خلاف ایف آئی اے کی درخواست خارج کردی۔

اس کے دو روز بعد لاہور ہائی کورٹ نے پولیس اور اے سی ای کو پنجاب کے سابق وزیر اعلیٰ کو کسی بھی نامعلوم کیس میں گرفتار کرنے سے روک دیا تھا۔

بعد ازاں 15 جولائی کو بینکنگ جرائم کی ایک عدالت نے منی لانڈرنگ کیس میں چوہدری پرویز الہٰی کی کیمپ جیل سے رہائی کے احکامات جاری کیے تھے۔

تاہم انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا اور پولیس نے بتایا کہ پی ٹی آئی رہنما کے خلاف غالب مارکیٹ تھانے میں دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں