خیرپور: پراسرار طور پر ہلاک کمسن گھریلو ملازمہ پر جسمانی تشدد کی تصدیق

کمسن فاطمہ  رواں ہفتے کے اوائل میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی تھی— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک
کمسن فاطمہ رواں ہفتے کے اوائل میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی تھی— فائل فوٹو: شٹر اسٹاک

خیرپور میں پراسر طور پر مردہ حالت میں ملنے والی 9سالہ گھریلو ملازمہ کی قبرکشائی کر کے پوسٹ مارٹم کرنے والے میڈیکل بورڈ نے کمسن ملازمہ پر جسمانی تشدد کی تصدیق کے ساتھ ساتھ جنسی استحصال کا خدشہ بھی ظاہر کیا ہے۔

کمسن فاطمہ فریرو اثرورسوخ کے حامل مقامی پیر اسد شاہ کی حویلی میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی اور رواں ہفتے کے اوائل میں پراسرار حالات میں مردہ پائی گئی تھی جس کے بعد اسد شاہ کو حراست لیا گیا تھا۔

اس کے بعد کم سن ملازمہ کی والدہ شمیم خاتون کی شکایت پر رانی پور تھانے میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت مقدمہ درج کر کے تفتیش شروع کر دی گئی تھی۔

جمعہ کو خیرپور پولیس نے ملازمہ کی قبرکشائی اور لاش کے پوسٹ مارٹم کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا اور اس عمل کو گزشتہ روز مکمل کر لیا گیا تھا۔

سکھر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل جاوید جسکانی نے کہا کہ میڈیکل بورڈ کے نتائج کی روشنی میں رانی پور تھانے کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرر کے ساتھ ساتھ کیس کی تفتیش میں شامل ڈاکٹر اور کمپاؤنڈر کا ریمانڈ طلب کیا گیا ہے۔

انہوں نے ڈان ڈاٹ سے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ مشتبہ افراد کو ثبوتوں کو مٹانے اور بغیر پوسٹ مارٹم لڑکی لاش کو دفن کرنے کے مقدمے میں بھی نامزد کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ حویلی کام کرنے والے دیگر بچوں کو بھی فوری طور پر بازیاب کرا کے ان کے گھر بھیج دیا گیا ہے اور اس جگہ پر رہنے والے مردوں کے ڈی این اے نمونے اکٹھا کرنے کے لیے حویلی میں پولیس کیمپ لگایا جائے گا۔

ڈان کو دستیاب میڈیکل رپورٹ میں میڈیکل بورڈ کے نتائج کی تصدیق ہوئی لڑکی کی لاش گلنے سڑنے کے ایک اعلی درجے کے مرحلے میں داخل ہو چکی تھی، چہرے اور پیشانی کے دائیں جانب نیلے رنگ کے نشانات تھے اور چہرے، گردن اور کندھے کے بائیں جانب سبز رنگ کے نشانات تھے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ملازمہ کا پیٹ پھولا ہوا تھا جبکہ ہاتھ، پاؤں اور گھٹنے کی جلد پر جھریوں کے ساتھ ساتھ سیاہ نشانات تھے، اس کے علاوہ مقعد کے آس پاس کے حصے کے دائیں جانب ایک سرخ رنگ کا چھالا تھا۔

رپورٹ میں زخموں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا گیا کہ متاثرہ لڑکی کی پیشانی کے دائیں جانب اور دونوں آنکھوں پر زخم تھے، اس کے سینے پر دائیں جانب اوپری حصے اور کمر پر بھی زخم تھے جبکہ اس کے دونوں بازوؤں اور ہاتھوں پر خراشیں تھیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ تمام چوٹیں موت سے پہلے لگی تھیں جس کے بعد میڈیکل بورڈ نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ لڑکی کو مبینہ طور پر جنسی استحصال کا نشانہ بھی بنایا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لیبارٹری تجزیوں کے لیے جھاڑو جمع کر لیے گئے ہیں تاکہ ان کا بھی معائنہ کیا جا سکے۔

فاطمہ کی مبینہ تشدد سے موت کا معاملہ

لڑکی کے والد ندیم علی فریرو نے ابتدائی طور پر دعویٰ کیا تھا کہ لڑکی پیٹ کی کسی بیماری میں مبتلا تھی جسے 14 اور 15 اگست کی درمیانی شب ہسپتال لے جایا گیا اور بعد ازاں ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد لڑکی اپنے گھر میں دم توڑ گئی۔

واضح رہے کہ تشدد کے نتیجے میں بچی کے ’قتل‘کے دعوے اس وقت منظر عام پر آئے جب لڑکی پر تشدد کی ویڈیوز وائرل ہوئیں۔

یہ بات معلوم نہیں ہوسکی کہ ویڈیوز کس نے لیک کی ہیں، تاہم پولیس ٹیم نے ویڈیوز حاصل کرلی تھیں اور علاقے کے متعدد سماجی کارکنان سے ملاقات بھی کیں۔

حویلی کا تعلق اس فیملی سے ہے جسے عام طور پر ضلع خیرپور میں رانی پور کے پیر کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ویڈیوز وائرل ہونے کے بعد پولیس نے معاملے کا نوٹس لیا تھا اور سکھر کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے ڈی ایس پی قدوس کلوار نے لڑکی کے والدین سے ملاقات کی تھی۔

انہوں نے بعد میں سماجی کارکنوں سے ملاقات کی تھی اور وائرل ہونے والی ویڈیوز بھی دیکھی تھی، بعد ازاں سکھر کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل جاوید جسکانی کو اطلاع دی کہ معاملہ سنگین ہے اور فاطمہ کی قبر کُشائی کر کے لاش کا پوسٹ مارٹم ضروری ہے۔

دریں اثنا، فاطمہ کی والدہ کی شکایت پر مقدمہ درج کر لیا گیا تھا۔

17 اگست کو خیرپور پولیس نے اس کیس کے ایک اہم ملزم کو گرفتار کیا تھا جسے بعد میں پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔

خیرپور کے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) روحیل کھوسو نے اس دوران ڈان کو بتایا تھا کہ اس معاملے میں اسٹیشن ہاؤس آفیسر امیر علی چانگ، ڈاکٹر فتح میمن (محکمہ صحت کا ملازم) اور ایک کمپاؤنڈر کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں سنگین خامیاں

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن نے کیس کی ایف آئی آر میں سنگین خامیوں کی نشان دہی کی تھی اور اس میں بچوں کے تحفظ اور جبری مشقت سے متعلق قوانین کے سیکشنز بھی شامل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

سندھ ہیومن رائٹس کمیشن کے چیئرپرسن اقبال ڈیتھو نے پراسرار حالات میں لڑکی کی موت کے بارے میں رپورٹ ہونے والے واقعے کا از خود نوٹس لیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا کہ ایف آئی آر تعزیرات پاکستان کی دفعہ 302 اور 34 کے تحت درج کی گئی ہے اور کمیشن نے کہا کہ جبری مشقت اور تشدد سے متعلق سیکشنز جیسا کہ 370 اور 374 کو جان بوجھ کر لاگو نہیں کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان سیکشنز میں سندھ بانڈڈ لیبر سسٹم (ابولیشن) ایکٹ 2015 کے سیکشن، سندھ پروبیشن آف امپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 2017 کی دفعہ 3 اور 14، سندھ چائلڈ پروٹیکشن اتھارٹی ایکٹ 2011 کی دفعہ 2 اور 17 شامل ہیں۔

انہوں نے ایس ایس پی کو ہدایت کی تھی کہ تشدد کے الزامات کے حوالے سے قانونی راستہ اختیار کیا جائے اور قتل کی منصفانہ اور شفاف انکوائری کی جائے، اگر مذکورہ بالا جرائم کے تحت مقدمہ تفتیش کے دوران سامنے آیا تو انسانی حقوق کے وسیع تر مفاد میں ایف آئی آر میں ان دفعات کو شامل کیا جائے۔

انہوں نے اس معاملے کی سماعت 21 اگست کو مقرر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کے عہدے سے نیچے کا افسر رپورٹ کے ساتھ پیش ہوں۔

تبصرے (0) بند ہیں