امریکا میں ہونے والی ایک جامع تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا وائرس کے شکار افراد میں صحت یاب ہونے کے 6 ماہ بعد بھی ہائی بلڈ پریشر زیادہ ہوتا ہے اور ایسے افراد اس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں جو بیماری کے دوران ہسپتال داخل ہوئے ہوں۔

امریکی ماہرین نے نیویارک میں 45 ہزار کورونا کا شکار ہونے والے افراد جب کہ 14 ہزار انفلوئنزا میں مبتلا مریضوں میں بلڈ پریشر کا جائزہ لیا گیا۔

مذکورہ تمام افراد کی عمر 40 سال سے زائد تھی اور تمام رضاکار مرد تھے اور ان میں پہلے بلڈ پریشر کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔

طبی جریدے میں شائع تحقیق کے مطابق ماہرین نے یکم مارچ 2020 سے فروری 2022 تک کورونا میں مبتلا ہونے والے افراد کو منصوبے کا حصہ بنایا۔

تحقیق میں شامل 45 ہزار کورونا کے شکار افراد میں سے ہزاروں رضاکار ایسے تھے جن میں کورونا کی شدید علامات تھیں اور انہیں ہسپتال بھی داخل ہونا پڑا تھا۔

تمام مریضوں کا صحت یاب ہونے کے 6 ماہ بعد جائزہ لیا گیا اور ان میں بلڈ پریشر کی سطح جانچی گئیں۔

ماہرین نے پایا کہ عام انفلوئنزا یا اسی طرح کے دیگر وائرسز میں مبتلا ہونے والے افراد میں عام افراد کے مقابلے ہائی بلڈ پریشر بڑھنے کی شرح ڈھائی فیصد تک تھی۔

تاہم کورونا میں مبتلا وہ افراد جن میں شدید علامات تھیں اور انہیں علاج کے لیے ہسپتال داخل ہونا پڑا تھا ان میں ہائی بلڈ پریشر کی شرح بہت زیادہ پائی گئی۔

نتائج کے مطابق کورونا کے دوران ہسپتالوں میں داخل ہونے والے افراد میں 6 ماہ بعد بھی دیگر لوگوں کے مقابلے ہائی بلڈ پریشر 50 فیصد زیادہ تھا۔

یعنی اگر عام افراد کا بلڈ پریشر 130/80 تھا تو ان میں 150/100 یا اس سے بھی زیادہ تھا۔

تحقیق سے ثابت ہوا کہ کورونا کے شکار افراد میں انفلوئنزا یا اسی طرح کے دیگر وائرسز میں مبتلا ہونے والے افراد کے مقابلے ہائی بلڈ پریشر کی شرح زیادہ پائی گئی۔

تاہم ماہرین مکمل طور پر یہ ثابت کرنے میں ناکام ہوئے کہ کورونا کے شکار افراد میں کن وجوہات کی وجہ سے بلڈ پریشر کی شرح بڑھی۔

تاہم ماہرین کے مطابق ممکنہ طور پر کورونا کے شکار افراد میں پہلے سے ہی چند طبی پیچیدگیوں کی وجہ سے بلڈ پریشر کی شرح بڑھی ہوگی۔

تبصرے (0) بند ہیں