سائفر کیس: شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع مسترد، 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور

اپ ڈیٹ 30 اگست 2023
2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کو پیش کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز
2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کو پیش کیا گیا — فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں گرفتار پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع کی استدعا مسترد کرتے ہوئے انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

2 روزہ جسمانی ریمانڈ مکمل ہونے کے بعد شاہ محمود قریشی کو پیش کیا گیا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کے جسمانی ریمانڈ سے متعلق ایف آئی اے کی درخواست پر ان کیمرا سماعت کی۔

اسپیشل پراسیکوٹر شاہ خاور اور پی ٹی آئی کے وکلا عمیر نیازی، شعیب شاہین اور بابر اعوان خصوصی عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس موقع پر عدالت کے باہر سیکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔

پی ٹی آئی وکلا کے مطابق ایف ائی اے کے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی نے شاہ محمود قریش کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے ایف آئی آے پراسیکیوٹر پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ آپ نے اتنے دن جسمانی ریمانڈ میں کیا ریکوری کی۔

وکلا کے مطابق خصوصی عدالت نے ایف آئی اے کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی کو جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا۔

بعد ازاں شاہ محمود قریشی کے وکلا نے ان کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواست دائر کی جس پر سماعت جج ابولحسنات ذوالقرنین نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت 2 ستمبر کو جواب طلب کر لیا اور سماعت 2 ستمبر تک ملتوی کر دی۔

جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے شاہ محمود قریشی کے وکلا کو جیل میں اپنے مؤکل سے ملاقات کی اجازت بھی دےدی جس کے بعد وکلا بابراعوان اور آمنہ علی آج ان سے ملاقات کریں گے۔

یاد رہے کہ 19 اگست کو وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے پاکستان تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی کو اسلام آباد سے گرفتار کرلیا تھا اور انہیں سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں نامزد کردیا گیا تھا۔

ان کی گرفتاری کے اگلے روز اسلام آباد کے مقامی مجسٹریٹ نے انہیں ایک روز کے لیے ایف آئی اے کی تحویل میں دے دیا تھا، جس کے بعد سے وہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں تھے۔

سائفر کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ اس سائفر میں عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکا کی جانب سے دھمکی دی گئی تھی، پی ٹی آئی کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران بھی اسی کیس میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں جب کہ سابق وفاقی وزیر اور پی ٹی آئی رہنما اسد عمر ضمانت پر ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا اور بتایا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیرمجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

ایف آئی اے میں درج ایف آئی آر میں عمران خان، شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا ہے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے۔‘

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔‘

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا۔‘

ایف آئی اے اس وقت اٹک جیل میں قید چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان سے سفارتی سائفر کی گمشدگی پر تحقیقات کر رہی ہے، جس کو انہوں نے اپنی حکومت کے خاتمے کے لیے ’بیرونی سازش‘ کے طور پر پیش کیا تھا۔

27 اگست کو بھی ایف آئی اے نے سابق وزیراعظم سے سفارتی کیبل سے متعلق کیس میں دوبارہ پوچھ گچھ کی، ایف آئی اے ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایاز خان کی سربراہی میں 6 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) نے جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کے دفتر میں عمران خان سے ملاقات کی اور ایک گھنٹے تک اُن سے پوچھ گچھ کی۔

ذرائع نے بتایا کہ اس سے قبل ایف آئی اے کے انسداد دہشت گردی ونگ نے گمشدہ سائفر کے حوالے سے مقدمہ درج کرلیا جو کہ مبینہ طور پر وزیراعظم آفس کے سرکاری ریکارڈ سے غائب ہے۔

اٹک جیل میں عمران خان سے پوچھ گچھ کے دوران اُن سے اسی سائفر کے حوالے سے سوال جواب کیے گئے جو انہوں نے گزشتہ برس اپنی حکومت کے خاتمے سے قبل ایک جلسے کے دوران لہرایا تھا اور اسے روس کے بارے میں اپنے مؤقف کی وجہ سے خود کو اقتدار سے ہٹانے کی ’امریکی سازش‘ کا ثبوت قرار دیا تھا۔

گزشتہ ماہ 25 جولائی کو عمران خان سائفر کیس کی تحقیقات کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سامنے پیش ہوئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں