ڈاکٹر عارف علوی 5 سالہ مدت پوری کرنے والے چوتھے صدرپاکستان

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2023
صدر مملکت کی 6 اکتوبر 2022 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لی گئی تصویر — فوٹو: قومی اسمبلی / ٹوئٹر
صدر مملکت کی 6 اکتوبر 2022 کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے لی گئی تصویر — فوٹو: قومی اسمبلی / ٹوئٹر

ڈاکٹر عارف علوی 5 سالہ مدت پوری کرنے والے ملک کے جمہوری طور پر منتخب ہونے والے چوتھے صدر ہوں گے، ان کی مدت ملازمت آج (جمعہ) کو باضابطہ طور پر ختم ہو رہی ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سے قبل تین صدور نے اپنی مدت مکمل کی ہے، جن میں چوہدری فضل الہٰی (پانچویں صدر، 1973 تا 1978)، آصف علی زرداری (گیارہویں صدر، 2008 تا 2013) اور ممنون حسین (بارہویں صدر، 2013 تا 2018) شامل ہیں، لہٰذا ڈاکٹر عارف علوی مدت پوری کرنے والے مسلسل تیسرے صدر ہوں گے۔

صدر کے انتخاب کے لیے ضروری الیکٹورل کالج کی عدم موجودگی میں ڈاکٹر عارف علوی کے غیر معینہ مدت تک عہدے پر رہنے کا امکان ہے، اس سے وہ ملکی تاریخ کے ان سربراہان مملکت میں سے ایک بن جائیں گے جن کی مدت میں توسیع ہوگی، اگرچہ فضل الہٰی 16 ستمبر 1978 کو ضیا الحق کے صدر بننے سے قبل ایک مہینہ اضافی عہدے پر رہے۔

قانون کے تحت دونوں ایوانوں (قومی اسمبلی اور سینیٹ) اور چاروں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین کی جانب سے صدر مملکت کو منتخب کیا جاتا ہے۔

آئین کے آرٹیکل 44 (1) کے مطابق صدر اپنے عہدے کا چارج سنبھالنے کے دن سے 5 سال کی مدت کے لیے اپنے عہدے پر فائز رہیں گے، لیکن وہ اس عہدے پر اس وقت تک برقرار رہیں گے جب تک ان کے جانشین کا انتخاب نہیں ہو جاتا۔

عام انتخابات کے انعقاد پر پراسرایت ہے، الیکشن کمیشن بظاہر جنوری کے آخر میں کہیں انتخابات کرانے کا منصوبہ بنا رہا ہے، اس لیے ڈاکٹر عارف علوی کتنی دیر تک عہدے پر فائز رہیں گے، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔

اپنی پوری مدت کے دوران ڈاکٹر عارف علوی تنازعات کا شکار رہے، ناقدین نے ان پر آئین کے ساتھ کھیلنے اور 77 آرڈیننسز جاری کر کے ایوان صدر کو ’آرڈیننس فیکٹری‘ میں تبدیل کرنے کا الزام عائد کیا۔

انہیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بھی مبینہ طور پر اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے خلاف بری نیت کے ساتھ ریفرنس بھیجنے اور وزیر اعظم کی ایڈوائس پر نیم اور خود مختار اداروں میں قانونی نقائص کے ساتھ تقرریوں پر تنقید کی گئی، تاہم انہیں عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کی ایڈوائس پر ڈاکٹر صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کر دی تھی، جس پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، اس سے قبل اُس وقت کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے قومی اسمبلی کے سیشن کو عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی اجازت دیے بغیر ہی ملتوی کر دیا گیا تھا۔

تاہم، بعدازاں سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے متفقہ طور پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف لائی گئی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی رولنگ اور صدر مملکت کے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے فیصلے کو غیر آئینی قرار دے دیا تھا۔

اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان نے جون 2020 میں سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

عدالتی حکم میں کہا گیا تھا کہ 2019 کا ریفرنس نمبر ایک قانونی حیثیت نہیں رکھتا اور اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے لہٰذا اس کے نتیجے میں سپریم جوڈیشل کونسل (”کونسل“) میں درخواست گزار کے خلاف سی پی 17/2019 میں زیر التوا کارروائی (بشمول 2019-07-17 کو انہیں جاری کیا گیا شوکاز نوٹس) بھی منسوخ ہوگیا۔

رواں برس فروری میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں ازخود 9 اپریل کو انتخابات کی تاریخ کا اعلان کردیا تھا۔

تازہ ترین تنازع اس وقت سامنے آیا، جب ڈاکٹر عارف علوی نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل اور پاکستان آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کیے۔

تاہم نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی نے بتایا تھا کہ صدر مملکت نے دونوں بلز واپس نہیں بھیجے، لہٰذا قانون عمل میں آچکا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر جاری بیان میں عارف علوی نے کہا کہ خدا گواہ ہے، میں نے آفیشل سیکرٹ ترمیمی بل 2023 اور پاکستان آرمی ترمیمی بل 2023 پر دستخط نہیں کیے کیونکہ میں ان قوانین سے متفق نہیں ہوں۔

انہوں نے لکھا کہ میں نے اپنے عملے سے کہا تھا کہ وہ دستخط کے بغیر بلوں کو مقررہ وقت کے اندر واپس بھیج دیں تاکہ انہیں غیر مؤثر بنایا جا سکے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں