معاشی مسائل سے دوچار پی آئی اے مزید طیارے گراؤنڈ کرنے پر مجبور

اپ ڈیٹ 11 ستمبر 2023
اس دوران اس کے بنیادی فنکشنز اور غیر اہم اثاثوں کو فروخت کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے — فائل فوٹو: رائٹرز
اس دوران اس کے بنیادی فنکشنز اور غیر اہم اثاثوں کو فروخت کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے — فائل فوٹو: رائٹرز

پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے آئندہ چند ماہ تک فلائٹ آپریشنز جاری رکھنے کے لیے فنڈز کے حصول میں دشواری کے سبب مزید طیارے گراؤنڈ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اس دوران اس کے بنیادی فنکشنز اور غیر اہم اثاثوں کو فروخت کے لیے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت ہوا بازی نے گزشتہ ہفتے ایک سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو بتایا کہ پی آئی اے اس وقت شدید معاشی بحران سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے پی آئی اے پر قرض دہندگان، طیارے لیز پر دینے والوں، ایندھن فراہم کرنے والوں، بیمہ کنندگان، بین الاقوامی اور ڈومیسٹک ایئرپورٹ آپریٹرز اور حتیٰ کہ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کے بقایاجات واجب الادا ہیں۔

نتیجتاً پی آئی اے اپنے 13 لیز پر لیے گئے طیاروں میں سے 5 کو گراؤنڈ کرنے پر مجبور ہے اور خدشہ ہے کہ مزید 4 طیاروں کے حوالے سے بھی یہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔

بڑھتے ہوئے خدشات میں اضافہ کرتے ہوئے وزارت ہوابازی نے انکشاف کیا کہ بوئنگ اور ایئربس ستمبر کے وسط تک اسپیئر پارٹس کی سپلائی بند کرنے والے ہیں۔

ان چیلنجز پر غور کرتے ہوئے وزارت ہوا بازی نے 23 ارب روپے کے فوری مالی تعاون اور ملکی ایجنسیوں کو واجب الادا ڈیوٹی، ٹیکس اور سروس چارجز کی معطلی کی درخواست کی ہے، تاہم یہ درخواست کسی ٹھوس اور قابل عمل کاروباری منصوبے کی پیشکش کے بغیر ہے۔

وزارت ہوابازی نے متنبہ کیا کہ پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ ایک پیچیدہ عمل ہے جس میں لگ بھگ 8 ماہ لگنے کی توقع ہے، پی آئی اے کے حصص کی منصفانہ قیمت حاصل کرنے کے لیے اسے ری اسٹرکچرنگ کے تمام مراحل کے دوران آپریشنل رہنا چاہیے۔

بدقسمتی سے پی آئی اے ملک کی آبادی کے صرف محدود حصے کو سروسز فراہم کر رہا ہے، 3 فیصد سے بھی کم شہری پی آئی اے کے ذریعے سفر کرتے ہیں جس کے لیے نمایاں سرکاری فنڈز استعمال ہوتے ہیں، یہ انتہائی تنقید کا نشانہ بننے والی اور خسارے میں جانے والی توانائی کمپنیوں کے بالکل برعکس ہے جو تقریباً 80 فیصد آبادی کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔

پی آئی اے کی 92 فیصد ملکیت حکومتِ پاکستان کے پاس ہے، 1990 کی دہائی کے اواخر سے پی آئی اے کو بڑھتے ہوئے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ ابھرتی ہوئی علاقائی ایئرلائنز سے مسابقت، کاروباری صلاحیت کی کمی، بیرونی اثرات، اندرونی بدانتظامی اور طیاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے ناکافی فنڈنگ ہے۔

مالی نقصانات سے نمٹنے کے لیے پی آئی اے نے کافی قرضہ لیا جو کہ اب ناقابلِ انتظام سطح پر پہنچ چکا ہے، 31 دسمبر 2022 تک پی آئی اے کا قرضہ اور واجبات 743 ارب روپے تھے جو کہ اس کے اثاثوں کی کل مالیت سے 5 گنا زیادہ ہے، وزارت ہوا بازی نے کہا کہ گزشتہ مالی سال (23-2022) میں اس کا کُل نقصان 86 ارب 50 کروڑ روپے تھا، جن میں سے 11 ارب روپے آپریشنل نقصانات کی مد میں تھے۔

وزارت ہوابازی نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پی آئی اے کے قرضے اور واجبات ایک ہزار 977 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے اور 2030 تک اس کا سالانہ خسارہ 259 ارب روپے ہو جائے گا۔

علاوہ ازیں پی آئی اے کے موجودہ قرضوں کے واجبات میں سے 383 ارب روپے حکومت پاکستان کی جانب سے ’انڈر رائٹ‘ کیے گئے ہیں اور 92 فیصد مالک ہونے کے ناطے بقایا ادائیگیوں کی ذمہ داری بھی بالآخر حکومت پر ہی لاگو ہوتی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پی آئی اے کو مستحکم بنانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں، یہ کوششیں 2 بنیادی طریقوں پر عمل پیرا رہیں، پہلی حکمت عملی بنیادی طور پر لاگت میں کمی، اندرونی انتظام کو بہتر بنانے اور حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری کے ساتھ طیاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے پر مرکوز تھیں، تاہم اس نوعیت کی کئی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

دوسری حکمت عملی پی آئی اے کی مالیاتی، قانونی، آپریشنل، تجارتی اور انسانی وسائل کی ری اسٹرکچرنگ پر مرکوز ہے تاکہ اس کی بیلنس شیٹ کے مسائل سے نمٹا جا سکے، اس کا مقصد سرکاری حصص کی فروخت کے ذریعے نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔

اس حکمت عملی کی نشاندہی سب سے پہلے دبئی اسلامک بینک کنسورشیم کی 2017 کی رپورٹ میں کی گئی تھی جس میں نجکاری کمیشن نے کام کیا تھا اور بعد میں 2020 میں پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے پر ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ری اسٹرکچرنگ پلان کو حکومت کی جانب سے منظوری ملنا ابھی باقی ہے، ایوی ایشن ڈویژن نے گزشتہ ہفتے حکومت سے کہا کہ وہ مارک اپ ادائیگی کو پورا کرنے کے لیے 23 ارب روپے کے فنڈز دے، ایف بی آر کو ایک ارب 30 کروڑ ارب روپے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی معطل کروائے اور تقریباً 8 ماہ میں ری اسٹرکچرنگ مکمل ہونے تک قرضوں اور مارک اپ کو مؤخر کرے۔

ای سی سی اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے سلسلہ وار متعدد اجلاسوں میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو ان تجاویز نے متاثر نہیں کیا۔

بعد ازاں دونوں کمیٹیوں نے پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ پینل بنانے کا فیصلہ کیا اور وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے کہا کہ ری اسٹرکچرنگ کے ٹھوس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پی آئی اےکی مدد کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں