ایشیا کپ کا ایک اور بڑا مقابلہ بارش کی نذر ہونے سے تو بال بال بچ گیا لیکن مقابلہ جوں جوں آگے بڑھا، یوں لگا کہ مقابلے میں صرف ایک ہی ٹیم ہے۔ کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ شاید پاکستانی ٹیم سمجھ چکی تھی کہ بارش کے باعث یہ میچ بھی مکمل نہ ہو پائے گا۔ ٹاس جیت کر بابر اعظم کا بھارت کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دینا زیادہ تر کرکٹ ماہرین اور شائقین کرکٹ کو پسند نہیں آیا تھا۔

شاید پاکستانی ٹیم انتظامیہ کی خواہش تھی کہ پچھلے میچ کی طرح پاکستانی فاسٹ باؤلرز بھارتی ٹاپ آرڈر کو پویلین کی راہ دکھا دیں گے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ میچ سے پہلے بھارتی اوپنر شبھمن گل نے کہا تھا کہ ہمیں پتا ہے کہ پاکستانی ٹیم ہم پر کیسے حملہ کرے گی اور ہم اس کے لیے پوری طرح سے تیار ہے۔ میچ شروع ہوا تو چند ہی اوورز میں اندازہ ہو چکا تھا کہ شبھمن گل کی یہ باتیں صرف باتیں نہ تھیں۔ ایک جانب سے نسیم شاہ شاندار باؤلنگ سے بھارتی اوپنرز کا کریز پر کھڑا ہونا دشوار بنائے ہوئے تھے تو دوسری جانب سے شاہین آفریدی کو روہت اور شبھمن نے جیسے تلوار کی دھار پر رکھ لیا تھا۔

پاکستانی فاسٹ باؤلرز اور ٹیم انتظامیہ کو باقی دنیائے کرکٹ کی طرح ایک سے زیادہ ھکمت عملیاں بنانی ہوں گی۔ فرض کریں اگر پلان اے کام نہیں کر رہا تو پلان بی کیا ہوگا۔ لیکن شاید اس پر کوئی کام نہیں کیا گیا اور جوں ہی شاہین آفریدی کا پلان اے ناکام ہوا، وہ بری طرح دباؤ کا شکار نظر آئے اور بھارتی اوپنرز نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ شاہین آفریدی کو باؤلنگ کوچ اور ٹیم ڈائریکٹر کے ساتھ بیٹھ کر پلان بنانا ہوگا کہ اگر کسی بھی ٹیم کے اوپنرز کاؤنٹر اٹیک کرتے ہیں تو اس سے کیسے نمٹنا ہے۔ یہ کام صرف شاہین آفریدی کو ہی نہیں، تمام پاکستانی باؤلرز کو کرنا ہوگا۔

بھارت کے دونوں اوپنرز اوپر تلے پویلین لوٹے اور رن ریٹ کم ہونے لگا تو بارش کا آغاز ہو گیا۔ بارش کبھی رکتی، کبھی بادل پھر سے برسنے لگتے اور یوں میچ کے پہلے دن کا اختتام ہوگیا۔ اس میچ میں ریزرو ڈے اسی لیے رکھا گیا تھا کہ شائقین کرکٹ ایک بار پھر ایک بڑے میچ سے محروم نہ رہ جائیں لیکن کولمبو میں 11 ستمبر کو موسم کے بارے میں پیش گوئیاں کچھ اچھی نہ تھیں۔ کیا میچ بارش کی وجہ سے منسوخ تو نہیں ہو جائے گا؟ اتوار کی رات کو بستر پر جاتے کروڑوں بھارتی پاکستانی شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں یہی سوال دوڑ رہا تھا۔

میچ کے دوسرے دن کا آغاز کچھ اچھا نہ تھا کیونکہ صبح سے ہی بارش کی خبریں آرہی تھیں لیکن میچ کا وقت قریب آتے آتے موسم بہتر ہوتا چلا گیا۔ موسم تو بہتر ہوگیا مگر پاکستان کے لیے ایک بری خبر ساتھ لایا تھا۔ حارث رؤف جو پہلے دن ان فٹ ہوئے تھے، مزید باؤلنگ کے قابل نہ تھے۔ آنے والے دنوں میں اہم میچز اور پھر ورلڈکپ کی وجہ سے ٹیم انتظامیہ حارث پر رسک لینے کو تیار نہیں تھی۔

ورات کوہلی اور کے ایل راہول نے دوسرے دن بیٹنگ کا آغاز پر سکون انداز میں کیا لیکن جونہی انہوں نے دیکھا کہ کسی بھی پاکستانی باؤلر کو پچ سے کوئی مدد نہیں مل رہی تو انہوں نے رنز بنانے کی رفتار بڑھانا شروع کر دی۔ کوہلی اور راہول رنز کی رفتار بڑھا رہے تھے تو پاکستانی باؤلرز لائن لینتھ اور فیلڈرز فیلڈنگ بھولتے جا رہے تھے جبکہ کپتان بابر اعظم مکمل طور پر دفاع پر جاچکے تھے۔

دونوں بیٹسمینوں نے اس صورتحال کا خوب فائدہ اٹھایا، دونوں نے اپنی سنچریاں مکمل کیں اور اسی دوران ورات کوہلی نے ون ڈے کرکٹ میں اپنے 13 ہزار رنز بھی مکمل کر لیے۔ اس میچ میں ورات کوہلی نے اپنی 47 ویں ون ڈے سنچری بھی بنائی اور یوں وہ سچن ٹنڈولکر کی 49 ون ڈے سنچریوں سے صرف 2 سنچریاں پیچھے رہ گئے ہیں۔

بھارتی اننگ کے اختتام تک پاکستانی کھلاڑیوں کی شکلیں اترچکی تھیں، حوصلے پست لگ رہے تھے اور لگ رہا تھا کہ وہ شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ امید تھی کہ شاید وقفے کے دوران ٹیم میٹنگ اور انتظامیہ کی جانب سے دیے گئے پلان سے کھلاڑیوں کی باڈی لینگوئج اور اپروچ میں کچھ بہتری نظر آئے لیکن نہ جانے ایک بڑے ہدف کا خوف تھا یا بارش کا انتظار تھا کہ پاکستانی بیٹنگ پاکستانی باؤلنگ سے بھی زیادہ خراب رہی۔

یہ درست ہے کہ جسپریت بمرا اور محمد سراج نے بھارتی ٹیم کو بہت اچھا آغاز دیا لیکن پاکستانی بیٹسمینوں کو دیکھ کر لگ ہی نہیں رہا تھا کہ یہ ون ڈے کرکٹ میں دنیا کے 5 بہترین بیٹسمینوں میں شمار ہوتے ہیں۔ امام الحق بمرا کی گیند پر سلپ میں کیچ دے گئے تو بابر اعظم ہاردک پبھارت کی اندر آتی ایک گیند کو وکٹوں میں جانے سے نہ روک سکے۔ اس دوران کسی بھی وقت بابر اعظم کو دیکھ کر ایسا نہیں لگا کہ ون ڈے کرکٹ کا نمبر ون بیٹسمین کریز پر موجود ہے۔ بابر اعظم اور ان کے شاندار کھیل کے معترف صرف پاکستان میں ہی نہیں، دنیا بھر میں موجود ہیں لیکن کئی بار ایسی صورتحال میں بابر اعظم میں اعتماد کی کچھ کمی محسوس ہوتی ہے۔

بابر اعظم ڈھیروں ریکارڈز توڑ چکے، ٹی20 کرکٹ میں طویل عرصے تک نمبر ون رہے، اب ون ڈے میں طویل عرصے سے نمبر ون ہیں لیکن ساتھ ہی ان سے وابستہ توقعات بھی بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ شائقین کرکٹ بابر اعظم سے صرف ریکارڈز کے ہی خواہاں نہیں، بلکہ وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ مشکل حالات میں بابر اعظم پاکستان کو میچز جتوائیں۔ جہاں باقی کھلاڑی مشکلات کا شکار بھی ہوں تو بابر ایسے کھیلیں جیسے ایک ورلڈ کلاس بیٹسمین کو کھیلنا چاہیے۔

بابر کی وکٹ گرتے ہی بارش کا ایک اور وقفہ ہوا اور وقفے کے بعد کھلاڑی میدان میں اترے تو اب جیسے رسمی کارروائی ہی باقی رہ گئی تھی۔ پبھارت نے محمد رضوان کو پویلین بھیجا تو باقی بیٹسمینوں کے لیے کلدیپ یادوو مسئلہ فیثا غورث بن گئے جسے کوئی بھی نہ سلجھا پایا۔ ان فٹ نسیم شاہ اور حارث رؤف احتیاطاً بیٹنگ پر نہ آئے ورنہ شاید کلدیپ 7 وکٹیں ہی لے جاتے۔

یہ ایک کرکٹ میچ تھا اور اس میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے لیکن ہار جیت کا طریقہ بہت کچھ بدل کر رکھ سکتا ہے۔ یہ شکست ٹیم کو توڑ کر رکھ سکتی ہے اور یہاں سے واپسی ناممکن ہوسکتی ہے۔ پاکستان کا آخری گروپ میچ سری لنکا سے ہے اور سری لنکا کی ٹیم مسلسل 13 ون ڈے میچز جیت چکی ہے۔ اگر آج بھارت کے خلاف جیت گئے تو یہ تعداد 14 ہو جائے گی۔ کسی بڑے سپر اسٹار کی غیر موجودگی کے باوجود اتنی شاندار کارکردگی دکھانے والی ٹیم کے خلاف میدان میں اترنے سے پہلے آپ کو ذہنی طور پر مضبوط ہونا پڑے گا۔

ایشیا کپ میں سری لنکا کا ریکارڈ ہمشیہ سے بہترین رہا ہے۔ اسی لیے اس میچ سے پہلے اعتماد بحال کرنا ہوگا، خود پر اور اپنے ساتھیوں پر اعتماد رکھنا ہوگا، تبھی واپسی ممکن ہے۔ منصوبہ بندی میں اور کپتانی میں بہت بہتری کی ضرورت ہے۔ یہ کھلاڑی پہلے بھی بہترین کارکردگی دکھا چکے ہیں اور آئندہ بھی دکھا سکتے ہیں بس اپنی مکمل صلاحیت کے ساتھ کھیل پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں