پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے آئندہ چند ماہ تک فلائٹ آپریشنز جاری رکھنے کے لیے فنڈز کے حصول میں دشواری کے سبب کچھ طیاروں کو ’عارضی طور پر‘ گراؤنڈ کر دیا ہے، اور یقین دہانی کرائی ہے کہ ادائیگیاں کیے جانے کے بعد وہ واپس اڑان بھریں گے۔

واضح رہے کہ رواں ہفتے کے اوائل میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ پی آئی اے نے متعدد طیاروں کو گراؤنڈ کر دیا تھا کیونکہ اسے اگلے چند ماہ تک اپنے آپریشنز کو برقرار رکھنے کے لیے فنڈز کی کمی کا سامنا تھا۔

وزارت ہوا بازی نے گزشتہ ہفتے ایک سخت انتباہ جاری کرتے ہوئے وفاقی حکومت کو بتایا تھا کہ پی آئی اے اس وقت فنڈز کے شدید بحران سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے پی آئی اے پر قرض دہندگان، طیارے لیز پر دینے والوں، ایندھن فراہم کرنے والوں، بیمہ کنندگان، بین الاقوامی اور ڈومیسٹک ایئرپورٹ آپریٹرز اور حتیٰ کہ انٹرنیشنل ایئر ٹرانسپورٹ ایسوسی ایشن (آئی اے ٹی اے) کے بقایاجات واجب الادا ہیں۔

نتیجتاً پی آئی اے اپنے 13 لیز پر لیے گئے طیاروں میں سے 5 کو گراؤنڈ کرنے پر مجبور ہے اور خدشہ ہے کہ مزید 4 طیاروں کے حوالے سے بھی یہی فیصلہ کرنا پڑے گا۔

وزارت ہوابازی نے انکشاف کیا کہ بوئنگ اور ایئربس ستمبر کے وسط تک اسپیئر پارٹس کی فراہمی بند کرسکتے ہیں، ان چیلنجز پر غور کرتے ہوئے وزارت نے 23 ارب روپے کے فوری کیش کی فراہمی، ملکی ایجنسیوں کو ڈیوٹی، ٹیکس اور سروس چارجز کی معطلی کی درخواست کی، تاہم یہ درخواست کسی ٹھوس اور قابل عمل کاروباری منصوبے کی پیشکش کے بغیر سامنے آئی۔

وزارت نے متنبہ کیا کہ پی آئی اے کی تنظیم نو ایک پیچیدہ عمل ہے، جو لگ بھگ 8 ماہ تک جاری رہ سکتا ہے۔

اس بات پر بھی زور دیا کہ پی آئی اے کے حصص کی منصفانہ قیمت حاصل کرنے کے لیے ایئر لائن کو تنظیم نو کے تمام مراحل میں آپریشنل رہنا چاہیے۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز بلومبرگ کی ایک رپورٹ میں پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ خان کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ ایئرلائن کو اپنے کم از کم پانچ ایئربس اے 320 جیٹ طیاروں کو گراؤنڈ کرنے کے بعد متعدد ملکی اور بین الاقوامی پروازیں منسوخ کرنا پڑیں۔

رپورٹ میں ان کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ پی آئی اے کو تقریباً نصف درجن لیزنگ کمپنیوں کو فوری طور پر کم از کم 10 کروڑ ڈالر ادا کرنا ہوں گے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ بلومبرگ کے اعداد و شمار کے مطابق پی آئی اے کی واجبات بڑھ کر 743 ارب روپے یا 2.5 ارب ڈالر ہو گئے ہیں جو اس کے کل اثاثوں سے پانچ گنا زیادہ ہے۔

ڈان ڈاٹ کام سے بات کرتے ہوئے ترجمان عبداللہ خان نے کہا کہ کچھ لیز پر لیے گئے طیارے عارضی طور پر گراؤنڈ کر دیے گئے ہیں اور ادائیگیاں کیے جانے کے بعد واپس آجائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دسمبر 2022 سے فنڈز بلاک ہیں، اور لیز، ہوائی اڈے کی ہینڈلنگ فیس سے متعلق ادائیگیوں کے لیے غیر ملکی کرنسی کی تبدیلی کے چیلنجز ہیں۔

ترجمان نے جیو نیوز کی ایک رپورٹ پر ردعمل بھی دیا، جس میں ایئر لائن کے ایک سینئر اہلکار کے حوالے سے انتباہ دیا گیا تھا کہ پی آئی اے تباہی کے دہانے پر ہے اور اگر ہنگامی فنڈز فراہم نہیں کیے گئے تو 15 ستمبر تک فلائٹ آپریشن معطل کیا جا سکتا ہے۔

ترجمان نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ فلائٹ آپریشن 15 تاریخ تک بند نہیں ہو رہا، صورتحال مشکل ہو سکتی ہے لیکن بندش کے دہانے پر نہیں ہے۔

بدقسمتی سے پی آئی اے ملک کی آبادی کے صرف محدود حصے کو سروسز فراہم کر رہا ہے، 3 فیصد سے بھی کم شہری پی آئی اے کے ذریعے سفر کرتے ہیں، جس کے لیے نمایاں سرکاری فنڈز استعمال ہوتے ہیں، یہ انتہائی تنقید کا نشانہ بننے اور خسارے میں جانے والی توانائی کمپنیوں کے بالکل برعکس ہے، جو تقریباً 80 فیصد آبادی کو بجلی فراہم کرتی ہیں۔

پی آئی اے کی 92 فیصد ملکیت حکومتِ پاکستان کے پاس ہے، 1990 کی دہائی کے آخر سے پی آئی اے کو بڑھتے ہوئے نقصانات کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ ابھرتی ہوئی علاقائی ایئرلائنز سے مسابقت، کاروباری صلاحیت کی کمی، بیرونی اثرات، اندرونی بدانتظامی اور طیاروں کی تعداد بڑھانے کے لیے ناکافی فنڈنگ ہے۔

مالی نقصانات سے نمٹنے کے لیے پی آئی اے نے کافی قرضہ لیا جو اب ناقابلِ انتظام سطح پر پہنچ چکا ہے، 31 دسمبر 2022 تک پی آئی اے کا قرضہ اور واجبات 743 ارب روپے تھے، جو اس کے اثاثوں کی کُل مالیت سے 5 گنا زیادہ ہے، وزارت ہوا بازی نے کہا کہ گزشتہ مالی سال (23-2022) میں اس کا کُل نقصان 86 ارب 50 کروڑ روپے تھا، جن میں سے 11 ارب روپے آپریشنل نقصانات کی مد میں تھے۔

وزارت ہوا بازی نے کہا کہ اگر صورتحال ایسی ہی رہی تو پی آئی اے کے قرضے اور واجبات ایک ہزار 977 ارب روپے تک پہنچ جائیں گے اور 2030 تک اس کا سالانہ خسارہ 259 ارب روپے ہو جائے گا۔

علاوہ ازیں پی آئی اے کے موجودہ قرضوں کے واجبات میں سے 383 ارب روپے حکومت پاکستان کی جانب سے ’انڈر رائٹ‘ کیے گئے ہیں اور 92 فیصد مالک ہونے کے ناطے بقایا ادائیگیوں کی ذمہ داری بھی بالآخر حکومت پر ہی لاگو ہوتی ہے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران پی آئی اے کو مستحکم بنانے کے لیے کئی کوششیں کی گئیں، یہ کوششیں 2 بنیادی طریقوں پر عمل پیرا رہیں، پہلی حکمت عملی بنیادی طور پر لاگت میں کمی، اندرونی انتظام کو بہتر بنانے اور حکومت کی طرف سے سرمایہ کاری کے ساتھ طیاروں کی تعداد میں اضافہ کرنے پر مرکوز تھیں، تاہم اس نوعیت کی کئی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔

دوسری حکمت عملی پی آئی اے کی مالیاتی، قانونی، آپریشنل، تجارتی اور انسانی وسائل کی ری اسٹرکچرنگ پر مرکوز ہے تاکہ اس کی بیلنس شیٹ کے مسائل سے نمٹا جا سکے، اس کا مقصد سرکاری حصص کی فروخت کے ذریعے نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنا ہے۔

اس حکمت عملی کی نشاندہی سب سے پہلے دبئی اسلامک بینک کنسورشیم کی 2017 کی رپورٹ میں کی گئی تھی جس میں نجکاری کمیشن نے کام کیا تھا اور بعد میں 2020 میں پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے پر ڈاکٹر عشرت حسین کی رپورٹ میں بھی اس کی نشاندہی کی گئی تھی۔

ری اسٹرکچرنگ پلان کی حکومت کی جانب سے منظوری ملنا ابھی باقی ہے، ایوی ایشن ڈویژن نے گزشتہ ہفتے حکومت سے شرح سود کی ادائیگی کرنے کے لیے 23 ارب روپے کے فنڈز مانگے، اور ایف بی آر کو ایک ارب 30 کروڑ ارب روپے اور سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 70 کروڑ روپے کی ادائیگی معطل کرنے اور تقریباً 8 ماہ میں ری اسٹرکچرنگ مکمل ہونے تک قرضوں اور مارک اپ کو مؤخر کرنے کا مطالبہ کیا۔

ای سی سی اور کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کے سلسلہ وار متعدد اجلاسوں میں نگران وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کو ان تجاویز نے متاثر نہیں کیا۔

بعد ازاں دونوں کمیٹیوں نے پی آئی اے کی ری اسٹرکچرنگ کے منصوبے کا جائزہ لینے کے لیے ایک علیحدہ پینل بنانے کا فیصلہ کیا اور وزارت خزانہ اور اسٹیٹ بینک سے کہا کہ ری اسٹرکچرنگ کے ٹھوس منصوبے کو حتمی شکل دینے کے بعد معاشی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے پی آئی اےکی مدد کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں