عمران خان کو برطانیہ میں موجود بچوں سے فون پر گفتگو کی اجازت دینے سے انکار

اپ ڈیٹ 16 ستمبر 2023
ایس پی اٹک جیل نے کہا کہ پاکستان پریزن رولز 1978 میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو قیدی کو فون پر ملک سے باہر گفتگو کرنے کی اجازت دے—فوٹو: اے ایف پی
ایس پی اٹک جیل نے کہا کہ پاکستان پریزن رولز 1978 میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو قیدی کو فون پر ملک سے باہر گفتگو کرنے کی اجازت دے—فوٹو: اے ایف پی

محکمہ جیل خانہ جات پنجاب نے سائفر کیس میں اٹک جیل میں قید چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کو برطانیہ میں موجود اپنے بچوں سے فون پر بات چیت کرنے کی اجازت دینے سے انکار دیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے گرفتار ملزم فون کی سہولت کا حقدار نہیں ہے۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت قائم خصوصی عدالت نے حکام کو ہدایت کی تھی کہ عمران خان کو بچوں سے بات کرنے لیے فون کی سہولت فراہم کی جائے جس کے جواب میں سپرنٹنڈنٹ آف اٹک جیل نے رپورٹ عدالت میں جمع کرائی۔

خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات محمد ذوالقرنین نے یکم ستمبر کو ایس پی اٹک جیل کو یہ حکم جاری کیا تھا، جج نے رپورٹ پر دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 18 تاریخ تل ملتوی کردی تھی۔

ایس پی اٹک جیل نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ عمران خان آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعہ 5 اور 9 اور پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 34 کے تحت گرفتار ہیں، اس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان پریزن رولز 1978 میں کوئی ایسی شق نہیں ہے جو قیدی کو فون پر ملک سے باہر گفتگو کرنے کی اجازت دے۔

اس میں آئی جی پنجاب جیل خانہ جات کے خط کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ اس ایکٹ کے تحت گرفتار قیدی کو پنجاب کی جیل میں پبلک کال کی سہولت کی اجازت نہیں ہے۔

آئی جی جیل خانہ جات نے خط میں کہا کہ موجودہ طریقہ کار کے مطابق پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت گرفتار قیدی کو پی سی او کی سہولت فراہم کرنا ممکن، قانونی نہیں ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل شیراز رانجھا نے مؤقف اپنایا کہ جیل انتظامییہ نے عمران خان کو بچوں سے بات چیت کرنے کی سہولت فراہم کرنے کے عدالتی حکم کی تعمیل نہیں کی۔

واضح رہے کہ عمران خان سفارتی سائفر سے متعلق آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت درج مقدمے میں اٹک جیل میں جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں، یہ کیس سفارتی دستاویز سے متعلق ہے، جو مبینہ طور پر عمران خان کے قبضے سے غائب ہو گئی تھی، اسی کیس میں وائس چیئرمین پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی بھی 26 ستمبر تک جوڈیشل ریمانڈ پر جیل میں ہیں۔

ایف آئی اے کی جانب سے درج فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف آئی ار) میں شاہ محمود قریشی کو نامزد کیا گیا اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی دفعات 5 (معلومات کا غلط استعمال) اور 9 کے ساتھ تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔

ایف آئی آر میں 7 مارچ 2022 کو اس وقت کے سیکریٹری خارجہ کو واشنگٹن سے سفارتی سائفر موصول ہوا، 5 اکتوبر 2022 کو ایف آئی اے کے شعبہ انسداد دہشت گردی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں سابق وزیر اعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی اور اسد عمر اور ان کے معاونین کو سائفر میں موجود معلومات کے حقائق توڑ مروڑ کر پیش کرکے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر اپنے ذاتی مفاد کے حصول کی کوشش پر نامزد کیا گیا تھا۔

اس میں کہا گیا کہ سابق وزیراعظم عمران خان، سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور ان کے معاونین خفیہ کلاسیفائیڈ دستاویز کی معلومات غیر مجاز افراد کو فراہم کرنے میں ملوث تھے۔

سائفر کے حوالے سے کہا گیا کہ ’انہوں نے بنی گالا (عمران خان کی رہائش گاہ) میں 28 مارچ 2022 کو خفیہ اجلاس منعقد کیا تاکہ اپنے مذموم مقصد کی تکمیل کے لیے سائفر کے جزیات کا غلط استعمال کرکے سازش تیار کی جائے‘۔

مقدمے میں کہا گیا کہ ’ملزم عمران خان نے غلط ارادے کے ساتھ اس کے وقت اپنے پرنسپل سیکریٹری محمد اعظم خان کو اس خفیہ اجلاس میں سائفر کا متن قومی سلامتی کی قیمت پر اپنے ذاتی مفاد کے لیے تبدیل کرتے ہوئے منٹس تیار کرنے کی ہدایت کی‘۔

ایف آئی آر میں الزام عائد کیا گیا کہ وزیراعظم آفس کو بھیجی گئی سائفر کی کاپی اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان نے جان بوجھ کر غلط ارادے کے ساتھ اپنے پاس رکھی اور وزارت خارجہ امور کو کبھی واپس نہیں کی۔

مزید بتایا گیا کہ ’مذکورہ سائفر (کلاسیفائیڈ خفیہ دستاویز) تاحال غیر قانونی طور پر عمران خان کے قبضے میں ہے، نامزد شخص کی جانب سے سائفر ٹیلی گرام کا غیرمجاز حصول اور غلط استعمال سے ریاست کا پورا سائفر سیکیورٹی نظام اور بیرون ملک پاکستانی مشنز کے خفیہ پیغام رسانی کا طریقہ کار کمپرومائز ہوا ہے‘۔

ایف آئی آر میں کہا گیا کہ ’ملزم کے اقدامات سے بالواسطہ یا بلاواسطہ بیرونی طاقتوں کو فائدہ پہنچا اور اس سے ریاست پاکستان کو نقصان ہوا۔

ایف آئی اے میں درج مقدمے میں مزید کہا گیا کہ ’مجاز اتھارٹی نے مقدمے کے اندراج کی منظوری دے دی، اسی لیے ایف آئی اے انسداد دہشت گردی ونگ اسلام آباد پولیس اسٹیشن میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 اور 9 کے تحت تعزیرات پاکستان کی سیکشن 34 ساتھ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان اور سابق وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف آفیشنل خفیہ معلومات کا غلط استعمال اور سائفر ٹیلی گرام (آفیشل خفیہ دستاویز)کا بدنیتی کے تحت غیرقانونی حصول پر درج کیا گیا ہے اور اعظم خان کا بطور پرنسپل سیکریٹری، سابق وفاقی وزیر اسد عمر اور دیگر ملوث معاونین کے کردار کا تعین تفتیش کے دوران کیا جائے گا‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں