انتخابات نزدیک آتے ہی اہم اتحادیوں نے پی ڈی ایم سے کنارہ کشی اختیار کرلی

اپ ڈیٹ 18 ستمبر 2023
پی ڈی ایم کے قائدین اس اتحاد کا کوئی اجلاس بلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
پی ڈی ایم کے قائدین اس اتحاد کا کوئی اجلاس بلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اگرچہ اس کا باضابطہ طور پر اعلان نہیں کیا گیا ہے لیکن ملک کا سب سے بڑا سیاسی اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) غیرفعال ہو چکا ہے اور بھاری ووٹ بینک رکھنے والی بڑی سیاسی جماعتوں کا خیال ہے کہ انہیں اب اس پلیٹ فارم کی ضرورت نہیں ہے۔

دوسری جانب ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چھوٹی سیاسی جماعتیں آئندہ برس کے آغاز میں ہونے والے انتخابات سے قبل اس کی بحالی کی اب بھی امید کر رہی ہیں۔

قیام کے 2 برس بعد پی ڈی ایم کے قائدین اس اتحاد کا کوئی اجلاس بلانے میں بھی کوئی دلچسپی نہیں لے رہے، اس کے اہم ارکان آئندہ انتخابات کے لیے نئی حکمت عملی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر عرفان صدیقی کا کہنا ہے کہ اسلامی جمہوری اتحاد (آئی جے آئی) کے برعکس پی ڈی ایم کسی انتخابی اتحاد کے طور پر قائم نہیں ہوئی، یہ اتحاد ایک بالکل مختلف سیاسی منظر نامے میں قائم کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ عملی طور پر پی ڈی ایم تحلیل ہو چکی ہے، اس کا نظم و ضبط نظر نہیں آتا، اب پی ڈی ایم کے کوئی اجلاس نہیں ہوتے، تاہم اس اتحاد کو آگے بڑھانے کی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ تمام اتحادی اپنی اپنی انتخابی حکمت عملی کا تجزیہ کرنے میں مصروف ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ انتخابات کے بعد اقتدار میں آنے والی جماعتیں حکومت کرنے کے لیے ایک نیا اتحاد بنانے کا فیصلہ کریں گی اور جو جماعتیں اپوزیشن میں ہوں گی وہ اپنا اتحاد قائم کریں گی۔

پی ڈی ایم کا عروج

20 ستمبر 2020 کو اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے زیر اہتمام ایک کثیر الجماعتی کانفرنس میں پی ڈی ایم کا قیام عمل میں آیا تھا جس کا مقصد پی ٹی آئی حکومت کا تختہ الٹنا تھا۔

جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی-ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جو اس وقت ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے سخت ناقد تھے، نے اس کانفرنس کی جانب سے منظور کی گئی 26 نکاتی قرارداد پڑھ کر سنائی تھی۔

اعلامیے میں سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کا خاتمہ، مسلح افواج اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے کردار کے بغیر انتخابی اصلاحات کی تشکیل کے بعد نئے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات، سیاسی قیدیوں کی رہائی، صحافیوں کے خلاف مقدمات کی واپسی، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، دہشت گردی کے خلاف منصوبہ بندی، سی پیک کے تحت منصوبوں کی رفتار کو تیز کرنا اور احتساب کے نئے قانون کے تحت ہر سطح پر احتساب شامل تھا۔

اب پی ڈی ایم اتحاد غیر فعال ہوچکا ہے، اس کے خاتمے کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا کیونکہ سینیٹر عرفان صدیقی کے الفاظ میں یہ کوئی رجسٹرڈ ادارہ نہیں تھا اس لیے اسے باضابطہ طور پر تحلیل کرنے کا اعلان کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔

عارضی شراکت داری

ترجمان جے یو آئی (ف) اسلم غوری نے کہا کہ پی ڈی ایم اتحاد طویل المدتی جدوجہد یا کسی انقلاب کے لیے نہیں قائم کیا گیا تھا، یہ صرف ہائبرڈ حکومت کے خاتمے کے لیے قلیل مدتی اسٹریٹجک شراکت داری تھی۔

انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم کو ختم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ 2018 کا انتخابی منظر نامہ دہرائے جانے کا ہمیشہ امکان رہتا ہے لیکن اس بار ہمارے پاس نئے سرے سے جدوجہد شروع کرنے کے بجائے (غیر فعال پی ڈی ایم کی شکل میں) لوگ تیار ہوں گے۔

پی ڈی ایم کو انتخابی اتحاد میں تبدیل کرنے کے بارے میں ترجمان جے یو آئی (ف) نے بتایا کہ پارٹی نے اپنے صوبائی اور ڈویژنل چیپٹرز کو مقامی صورتحال کے مطابق سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کا اختیار دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی لیے ہم کراچی اور سندھ کے کچھ دیگر حصوں میں ایم کیو ایم (پاکستان) کے ساتھ ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے کچھ حصوں میں مسلم لیگ (ن) اور آفتاب شیرپاؤ کی قیادت میں قومی وطن پارٹی کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے امکانات ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں