پاکستان کے سابق کپتان عامر سہیل نے منصوبہ بندی کی کمی کو ایشیا کپ میں بابر اعظم اور ان کی ٹیم کی شکست کی وجہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی ٹیم کو اس عادت کو اپنانا ہوگا کہ چوٹ اُسی وقت ماری جائے جب لوہا گرم ہو۔

ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق سابق کپتان عامر سہیل نے بتایا کہ منصوبہ بندی کی کمی سے پاکستانی کی سری لنکا میں مہم کو نقصان پہنچا، جس کے لیے کپتان اور پوری ٹیم انتظامیہ کو برابر کا قصوروار ٹھہرانا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں سری لنکا کے خلاف سپر فور کے میچ میں کامیابی حاصل کرنی چاہیے تھی، اس کے ساتھ ہمیں یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ بھارت نے پورے ایشیا کپ میں شاندار کرکٹ کھیلی اور وہ جیتنے کے مستحق تھے۔

علاوہ ازیں سابق کپتان عامر سہیل نے اصرار کیا کہ پاکستان کو بڑے مقابلے جیتنے کے لیے صحیح وقت پر حملہ کرنے کا ہنر پیدا کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایشیا کپ میں جارحانہ عزم سے محروم رہا، بھارت کو گروپ مرحلے کے میچ میں 4 وکٹوں پر 6 رنز تک محدود کرنے کے بعد ہماری ٹیم کو آؤٹ کرنے کے لیے جانا چاہیے تھا، لیکن بدقسمتی سے ہمارے اسپنرز مشکلات میں نظر آئے۔

عامر سہیل کے خیال میں اوپنرز اور اسپن باؤلنگ وہ شعبے ہیں جن پر پاکستان کو کام کرنے کی ضرورت ہے۔

سابق کپتان نے کہا کہ ہمارے اوپنرز اور اسپنرز ایشیا کپ میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکے، جس کے لیے سپورٹ اسٹاف کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے، اسپنرز کو خاص طور پر درمیانی اوورز میں ٹیم کے لیے وکٹیں حاصل کرنی چاہیے تھیں، جو وہ نہیں کر سکے۔

ایشیا کپ کے دوران بطور ٹی وی کمنٹیٹر خدمات انجام دینے والے عامر سہیل نے کہا کہ اسپنرز 5 اکتوبر سے بھارت میں شروع ہونے والے ورلڈ کپ میں پاکستان کی پوزیشن کا تعین کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ ورلڈ کپ کے دوران زیادہ تر بھارتی پچز پر اسپنرز کا اہم کردار ہوگا، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے اسپنرز کس طرح باؤلنگ کرتے ہیں اور جس طرح سے ہمارے بلے باز مخالف ٹیم کے اسپنرز کو ہینڈل کرتے ہیں اس سے ورلڈ کپ میں پاکستان کی پوزیشن واضح ہو جائے گی۔

سابق کرکٹر نے کہا کہ اس سلسلے میں دستیاب وسائل کو بَروقت استعمال کرنے کا طریقہ اہم ہوگا، ہمارے بلے بازوں اور اسپنرز کو ایک دوسرے کا ساتھ دینا چاہیے، دونوں کو اپنے اہداف کا علم ہونا چاہیے کہ ٹیم ہدف کا تعاقب کر رہی ہے یا مجموعے کا دفاع کر رہی ہے۔

عامر سہیل کے مطابق پاکستان یقینی طور پر انگلینڈ، آسٹریلیا، بھارت اور سری لنکا کے ساتھ ورلڈ کپ کے فیورٹس میں شامل ہے اور اسے ورلڈ کپ سے قبل کسی بڑی تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ٹیم میں مجموعی طور پر تبدیلیوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے، یہ فرسٹ چوائس کے کھلاڑیوں اور بینچ کے کھلاڑیوں کو مینج کرنے کا معاملہ ہو گا۔

جب ان سے آل راؤنڈر شاداب خان کے بارے میں تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے کہا کہ لیگ اسپنر کو رہنمائی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ شاداب خان نے پاکستان کے لیے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور انہیں جلد بازی میں ورلڈ کپ سے پہلے تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے۔

سابق کرکٹر نے کہا کہ اگر وہ ایشیا کپ میں اچھی باؤلنگ نہیں کرسکے تو فارم میں کمی کی بنیادی وجہ پر غور کیا جائے اور اس کے مطابق سپورٹ اسٹاف کی رہنمائی کی جائے۔

عامر سہیل نے کہا کہ میرے خیال میں شاداب خان گیند کو بہت مضبوطی سے پکڑ رہے ہیں جس سے ان کی کلائی بند ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ اسپن نہیں کر پا رہے۔

پاکستان کے بیٹنگ کے شعبے پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق ٹیسٹ کرکٹر نے اتفاق کیا کہ ون ڈے میں نئے چہروں کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہاں، دونوں ٹیسٹ بلے بازوں عبداللہ شفیق اور سعود شکیل کو ورلڈ کپ اسکواڈ میں منتخب کیا جانا چاہیے کیونکہ ان دونوں کی تکینک بہترین ہے۔

ان سے پوچھا گیا کہ کیا وکٹ کیپر بلے باز محمد رضوان کو ون ڈے میں چوتھے نمبر پر کھلانا چاہیے، جس پر عامر سہیل نے کہا کہ ہاں، وہ اس پوزیشن پر شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں، درمیانی اوورز میں اسپنرز کو ہوشیاری سے کھیل رہے ہیں، لہٰذا تبدیلی کی ضرورت نہیں ہے۔

انجریز نے پاکستانی کیمپ کو بری طرح متاثر کیا ہے، فرنٹ لائن فاسٹ باؤلر نسیم شاہ اور حارث رؤف اس کا سب سے بڑا شکار ہیں۔

اس حوالے سے عامر سہیل کا خیال ہے کہ پی سی بی کو ڈاکٹر فیصل کو واپس لانا چاہیے، وہ یقینی طور پر معاملات کو بہتر طریقے سے سنبھال سکتے ہیں، ماضی میں کھلاڑی بھی ان کے کام سے مطمئن تھے۔

انہوں نے کہا کہ بابر اعظم کو قبل از وقت کپتان بنایا گیا تھا، لیکن انہیں فوری طور پر عہدے سے ہٹایا نہیں جا سکتا، اب چند برسوں کے بعد انہیں ایک اہم مرحلے پر مدد اور رہنمائی کی ضرورت ہے اور اپنی طرف سے بابر اعظم کو ایک لیڈر کے طور پر بڑے مرحلے پر چیلنجز پر قابو پانے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔

’پاکستان میں تکنیکی صلاحیتوں کا فقدان ہے‘

دریں اثنا، ایک اور سابق ٹیسٹ کپتان اور بیٹنگ لیجنڈ جاوید میانداد نے کہا کہ پاکستانی کرکٹرز میں بنیادی تکنیک کی کمی ہے، جس کی وجہ سے انہیں ایشیا کپ سمیت سخت مقابلوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ بھارتی ٹیم نے ایشیا کپ جیتنے کے لیے بہت اچھا کھیلا، ان کے زیادہ تر کرکٹرز کے پاس بہتر تکنیک ہے، جو وہ کلب اور اکیڈمی کی سطح پر حاصل کرتے ہیں، جبکہ پاکستان میں اعلیٰ سطح کے بہت سے کھلاڑی تکنیکی شعبے میں کمزور ہیں۔

جاوید میانداد نے کہا کہ یہی معاملہ انگلینڈ کے ساتھ بھی ہے جس نے حالیہ برسوں میں اپنے کرکٹ کے نظام کو تبدیل کر دیا ہے، اور اب وہ اعلیٰ درجے کے کھلاڑی پیدا کر رہے ہیں۔

ٹاپ لیول اسپن کے خلاف موجودہ پاکستانی بلے بازوں کی کمزوری پر جاوید میانداد نے کہا کہ اس خرابی پر قابو پانے کے لیے ملک کو نچلی سطح پر کرکٹ کو بہتر کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ جیسا کہ میں نے کہا کہ ہمارے پاس اس وقت تکنیکی طور پر اچھے کھلاڑیوں کی کمی ہے، اسکول، کالج، یونیورسٹی اور کلب کرکٹ نے کئی دہائیوں تک پاکستان میں عالمی معیار کے کھلاڑی پیدا کیے، یہ اب ہمارے نظام میں موجود نہیں ہیں اور اس کے نتیجے میں ہمارے کھلاڑی بین الاقوامی سطح پر کارکردگی دکھانے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔

پاکستان کے ورلڈ کپ کے امکانات کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں جاوید میانداد نے مختصر لیکن واضح جواب دیا کہ کھلاڑیوں کو ذہنی طور پر مضبوط ہونے کی ضرورت ہے، اس سے انہیں بہت مدد ملے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں