نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا ہے کہ پڑوسی ملک افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا اور خطے کے حوالے سے ہمارا نکتہ نظر وسیع ہے۔

سرکاری خبرایجنسی اے پی پی کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 78 ویں اجلاس کے موقع پر امریکا میں ہفتہ وار میگزین ’نیوز ویک‘ کو دیے گئے انٹرویو کے دوران افغانستان کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے پوچھے گئے سوال پر انہوں نے کہا کہ پڑوسی ملک افغانستان کی عبوری حکومت کے ساتھ تعلقات بہتر ہونے میں تھوڑا وقت لگے گا لیکن ہمیں پورا یقین ہے کہ ہم اس میں کامیاب ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ پورے خطے کے بارے میں ہمارا نکتہ نظر وسیع ہے لیکن یہ روزمرہ کے واقعات بعض اوقات ہمارے تعلقات کو خراب اور پیچیدہ بنا دیتے ہیں، تاہم تعلقات کو اس طریقے سے منظم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ دونوں کے لیے باہمی طور پر فائدہ مند ہو۔

نگران وزیراعظم نے کہا کہ نگران حکومت کو معاشی عدم استحکام کی صورت حال پر گہری تشویش ہے، جو اس وقت کافی حد تک قابو میں ہے لیکن ہم قانونی طور پر نگرانی کر رہے ہیں اور جب استحکام کی بات آتی ہے تو ہم اس حوالے سے اقدامات کرنے کے ذمہ دار ہیں۔

جنوبی ایشیا میں امریکی توجہ کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ ایک پاکستانی اور اس خطے سے آنے والے فرد کی حیثیت سے بہت حیرت ہوگی کہ خطے کو نظر انداز کیا جا رہا ہے یا اگر امریکا کی کم توجہ کا مستحق ہےکیونکہ یہ وہ جگہ تھی جہاں اصل میں بہت اہمم چیزیں وقوع پذیر ہوئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ جنوبی ایشیائی خطے کی تقریباً 3 سے 4 ارب کی آبادی ہے تو 4 ارب لوگوں کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے، تقریباً نصف انسانیت وہاں رہتی ہے۔ انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ان علاقوں میں ممکنہ تنازعات ہیں اور کشمیر کے تنازع کا ذکر نہ کرنا بہت بخل کی بات ہو گی کیونکہ یہ دو ایٹمی ریاستوں کے درمیان ایک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ سوچنے کی ضرورت ہےکہ یورپی براعظم پر مسئلہ کشمیر کے کس قسم کے مضمرات ہوں گے، پورے کرہ ارض پر شمالی امریکا اور باقی حصوں پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم نے جنوبی چین کے گرد انڈوپیسفک پالیسی کے تحت ایک علاقائی طاقت کے گھیراؤ پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم اس حوالے سے ہونی والی تمام پیش رفت کی نگرانی کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ نام نہاد انڈو پیسفک حکمت عملی ان مقاصد کے لیے کی گئی ہے جو مغربی طاقتوں کے لیے موزوں ہے، اس لیےتشویش کا عنصر ہے اور پاکستان کی جانب سے احتیاط کا احساس جائز ہے اور ہم اس کی کڑی نگرانی کر رہے ہیں اور ہم اس طرح کے چیلنج کا جواب دینے کے لیے اپنی تیاری کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں