افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمدی اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد

اپ ڈیٹ 04 اکتوبر 2023
فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

ملک میں اشیا کی غیر قانونی آمد کو روکنے کے لیے ایک اہم اقدام اٹھاتے ہوئے حکومت نے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت درآمد کی جانے والی اشیا پر 10 فیصد پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا اعلان کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس فیصلے کا مقصد اسمگلنگ کی روک تھام اور باقاعدہ ٹیکس عائد کرنا ہے، یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب حکومت نے پاکستان میں غیرقانونی طور پر رہائش پذیر تمام غیرملکی افراد بشمول 17 لاکھ 30 ہزار افغان شہریوں کو ملک چھوڑنے کا حکم اور ملک بدر کرنے کا انتباہ دے دیا ہے۔

کسٹمز ڈپارٹمنٹ کے نوٹی فکیشن (ایس آر او 1381 آف 2023) کے مطابق افغان ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت تجارتی سامان کے پاکستان کے راستے افغانستان میں داخل ہونے کے ڈکلیئریشن پراسس کے دوران اشیا کی اصل قیمت کے حساب سے 10 فیصد فیس پیشگی ادا کرنا ضروری ہے۔

ان اشیا میں کنفیکشنری، چاکلیٹ، جوتے، مختلف مشینری، کمبل، گھریلو ٹیکسٹائل اور گارمنٹس شامل ہیں، تاہم نوٹی فکیشن میں کہا گیا ہے کہ 3 اکتوبر، یعنی نوٹی فکیشن کے اجرا سے قبل افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت ڈکلیئر اشیا پر اس نوٹی فکشن کا اطلاق نہیں ہوگا۔

کسٹمز حکام کو شبہ ہے کہ بظاہر افغانستان بھیجا جانے والا کچھ سامان خفیہ طور پر پاکستان میں واپس بھیج دیا جاتا ہے، اس تناظر میں یہ تازہ ترین اقدام سامنے آیا ہے۔

ایک عہدیدار نے کہا کہ حال ہی میں کارگو کے حجم میں اضافہ ہوا ہے، افغانستان کی ٹرانزٹ ٹریڈ کی طلب ایک ارب ڈالر سے 2 ارب ڈالر سالانہ ہونے کے باوجود ہم نے نمایاں اضافہ دیکھا ہے، توقع ہے کہ یہ فیس عائد کرنے سے غیرقانونی تجارت میں ملوث افراد کو روکا جا سکے گا۔

عہدیدار نے کہا کہ ٹرانزٹ ٹریڈ معاہدے کے تحت پاکستان کو کارگو پر پراسیسنگ فیس عائد کرنے کا حق حاصل ہے۔

قبل ازیں، افغانستان کو پاکستان اقتصادی تعاون بھی فراہم چکا ہے، 15 اگست 2021 کو افغانستان کا اقتدار طالبان کے سنبھالنے کے بعد سے پاکستان نے پھلوں اور سبزیوں سمیت مختلف اشیا پر ٹیکس اور ڈیوٹی کی چھوٹ فراہم کی، علاوہ ازیں گزشتہ برس 6 جولائی سے حکومت نے زمینی راستوں سے افغانستان تک تمام مصنوعات کی روپے میں تجارت کی اجازت بھی دی۔

اسمگلنگ کی روک تھام کے لیے کسٹمز نے ’کسٹمز ایکٹ 1969‘ کے تحت متعدد پالیسیاں اپنائی ہیں، قانونی فریم ورک کو تقویت دینے کے لیے ضروری اشیا مثلاً گندم، آٹا، چینی اور یوریا کو ضروری اشیا کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔

علاوہ ازیں کسٹمز ایکٹ کے دائرہ کار کو افغانستان، بھارت اور ایران کی سرحدوں کے قریب 5 کلومیٹر سے بڑھا کر 10 کلومیٹر اور بلوچستان کے مخصوص اضلاع کے قریب 50 کلومیٹر تک بڑھا دیا گیا ہے۔

حکومت نے اسمگلنگ کے مسائل سے نمٹنے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ رابطے کے لیے چیف کلکٹر آف کسٹم (بلوچستان) کو بھی تعینات کردیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں