پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان نے سائفر کیس میں فرد جرم عائد کرنے کی کارروائی اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کر دی۔

چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے اپنے وکیل سلمان صفدر کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔

عمران خان نے درخواست میں استدعا کی ہے کہ سائفر کیس میں 23 اکتوبر کو عائد کی گئی فرد جرم غیر قانونی قرار دی جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عدالت عالیہ کو یہ اختیار ہے کہ وہ اسپیشل کورٹ یا ٹرائل کورٹ کا ریکارڈ طلب کرکے کسی بھی کیس کا معائنہ کر سکتی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار, آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہونے والے ٹرائل اور فرد جرم عائد کرنے کے طریقہ کار سے پریشان ہیں۔

خیال رہے کہ 23 اکتوبر کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم و چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

عمران خان نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں سائفر کیس میں فرد جرم کے خلاف دائر درخواست میں کہا ہے کہ درخواست گزار ملک کی سب سے بڑی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ ہیں، جن کے خلاف غداری، توشہ خانہ، اشتعال انگیز تقاریر، دہشت گردی سمیت تقریباً 40 مقدمات درج ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ جعلی مقدمات میں ناکامی کے بعد وفاقی تحقیقاتی ادارہ ( ایف آئی اے) ممنوعہ پارٹی فنڈنگ میں بھی عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام ہوگئی اور پھر سائفر کیس کا سہارا لیا۔

عدالت سے کہا گیا کہ مسلسل سیاسی انتقامی کارروائی کے پیش نظر ایف آئی اے کی طرف سے سابق وزیراعظم عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان کے خلاف جعلی اور من گھڑت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے مؤقف اپنایا کہ درخواست گزار توشہ خانہ ریفرنس میں پہلے ہی اڈیالہ جیل میں قید ہیں اور ’سیکیورٹی خدشات‘ کا حوالہ دیتے ہوئے وکلا اور اہل خانہ کو ملاقات کی اجازت نہیں دی جا رہی۔

انہوں نے کہا ہے کہ غیرقانونی حربے اس بات سے ظاہر ہوتے ہیں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا مقدمہ عوامی آگاہی سے ہٹ کر بند دروازوں کے پیچھے چلایا جا رہا ہے۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ کیس کی سماعت کرنے والے جج سراسر جلد بازی کر رہے ہیں، فیئر ٹرائل اور پروسیجر پر مفاہمت کر رہے ہیں اور سنگین اعتراضات پر مبنی درخواستیں دائر کرنے کے باوجود ملزم کے خلاف فرد جرم عائد کر دی گئی۔

چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا ہے کہ خصوصی عدالت نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشن 5 کے تحت فرد جرم عائد کیا جو کہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی ’سیکرٹ گرفتاری‘ اور ’سیکرٹ ریمانڈ‘ اور جلدی سے فرد جرم عائد کرنا واضح طور پر غلط نکتہ نظر کی عکاسی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر درخواست کے مطابق جج نے اہم دستاویزی ثبوت کی عدم موجودگی میں چیئرمین پی ٹی آئی پر فرد جرم عائد کرکے بہت بڑا غیرقانونی کام کیا ہے۔

عدالت عالیہ سے استدعا کی گئی ہے کہ فرد جرم عائد کرنے کے لیے جلدی میں کیے گئے عمل کو غیر قانونی اور کوڈ آف کرمنل پروسیجر کے طے شدہ اصولوں کے خلاف قرار دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس اقدام کو آئین کے آرٹیکل 4 اور 10 اے کی خلاف ورزی قرار دیا جائے۔

واضح رہے کہ خصوصی عدالت نے سابق وزیر اعظم اور چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے خلاف سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی تھی۔

آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات محمد ذوالقرنین نے چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کے خلاف اڈیالہ جیل میں سائفر کیس کی سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران سابق وزیراعظم اور سابق وزیر خارجہ پر جرم عائد کی گئی جبکہ دونوں ملزمان نے صحت جرم سے انکار کیا تھا۔

عدالت نے ٹرائل کا باقاعدہ آغاز کرتے ہوئے 27 اکتوبر کو گواہان کو طلب کر لیا ہے۔

یاد رہے کہ ایف آئی اے نے 30 ستمبر کو عدالت میں چالان جمع کرایا تھا، جس میں مبینہ طور پر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے سیکشنز 5 اور 9 کے تحت سائفر کا خفیہ متن افشا کرنے اور سائفر کھو دینے کے کیس میں مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔

ایف آئی اے نے چالان میں 27 گواہان کا حوالہ دیا، مرکزی گواہ اعظم خان پہلے ہی عمران خان کے خلاف ایف آئی اے کے سامنے گواہی دے چکے ہیں۔

اعظم خان نے اپنے بیان میں مبینہ طور پر کہا تھا کہ عمران خان نے اس خفیہ دستاویز کا استعمال عوام کی توجہ عدم اعتماد کی تحریک سے ہٹانے کے لیے کیا جس کا وہ اُس وقت بطور وزیر اعظم سامنا کر رہے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں