اسلام آباد: پمز، پولی کلینک ہسپتالوں میں آرمی افسران تعینات کرنے کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 29 اکتوبر 2023
پمز کے سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ کرپشن کو بہانہ بنا کر ملک بھر کے بیشتر اداروں میں فوجی افسران کا تقرر کیا جارہا ہے — فائل فوٹو: محمد عاصم
پمز کے سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ کرپشن کو بہانہ بنا کر ملک بھر کے بیشتر اداروں میں فوجی افسران کا تقرر کیا جارہا ہے — فائل فوٹو: محمد عاصم

حکومتی اقدام کو ’بدقسمتی‘ قرار دینے والے ڈاکٹروں کے تحفظات کے باوجود نگران حکومت نے پاکستان آرمی میڈیکل کور کے حاضر سروس افسران کو اسلام آباد کے دو سب سے بڑے سرکاری ہسپتالوں پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) اور پولی کلینک میں تین سال کے لیے ڈیپوٹیشن پربطور سربراہ تعینات کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی وزارت صحت (این ایچ ایس) کے ترجمان ساجد شاہ نے کہا کہ یہ فیصلہ مریضوں اور شعبہ صحت کے بہترین مفاد میں کیا گیا ہے جو ہسپتالوں کے تمام مسائل کو حل کردے گا۔

وزارت صحت کی جانب سے وزارت دفاع کو ارسال کیے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ پمز اور پولی کلینک میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے فیڈنگ کیڈر سے اہل افسران کی عدم دستیابی کی وجہ سے ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے عہدے خالی ہیں، اہمیت کی وجہ سے ان اداروں کو اہل سربراہان کے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا۔

اس میں مزید کہا گیا کہ آئی سی ٹی میں بڑے پیمانے پر عوامی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات کی موثر فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے عبوری طور پر پاکستان آرمی میڈیکل کور سے ’سیکنڈمنٹ‘ کی بنیاد پر اسامیوں کو پُر کرنے کی خواہش کی گئی ہے۔

وزارت صحت کے سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حاضر سروس فوجی افسران کی تعیناتی سے ہسپتال کے زیادہ تر مسائل حل ہو جائیں گے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بدقسمتی سے تقریباً 80 فیصد سینئر ڈاکٹر بروقت ہسپتال نہیں آتے اور یہی صورتحال جونیئر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کے حوالے سے ہے، ہمیں روزانہ کی بنیاد پر دونوں ہسپتالوں کے عملے کے رویے اور عدم حاضری کے بارے میں دسیوں شکایات موصول ہوتی ہیں، صرف کوئی فوجی افسر ہی ان ہسپتالوں میں نظم و ضبط کو نافذ کر سکے گا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ دونوں ہسپتالوں کے ڈاکٹر اپنی لیبز، ایم آر آئی اور دیگر ریڈیولاجیکل ٹیسٹ کی مشینیں چلا رہے ہیں اور مریضوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ہسپتال کے باہر ملکیت میں موجود ٹیسٹنگ مراکز میں ٹیسٹ کروائیں۔

تاہم پمز کے ایک سینئر ڈاکٹر نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا اور اسے ’بدقسمتی‘ قرار دیا، انہوں نے دعویٰ کیا کہ کرپشن کو بہانہ بنا کر ملک بھر کے بیشتر اداروں میں فوجی افسران کا تقرر کیا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتا کہ مسلح افواج کے افسران کی سربراہی میں موجود ادارے کیسے چلائے جا رہے ہیں، صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ صحت کے شعبے میں اہل لوگ موجود ہیں جنہیں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر تعینات کیا جا سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر ان ہسپتالوں میں کوئی قابل شخص نہیں ہے تو وزارت کسی سویلین کی خدمات حاصل کر سکتی تھی، بدقسمتی سے مسلح افواج کے افسران صرف ٹائم ان اور ٹائم آؤٹ پر توجہ دیتے ہیں، وہ کام کے معیار کی پرواہ نہیں کرتے، وہ اس بات کا جائزہ نہیں لیتے کہ ایک ڈاکٹر روزانہ کتنے آپریشن کرتا ہے۔

سینئر ڈاکٹر نے کہا کہ ہمیں پہلے ہی عملے کی کمی کا سامنا ہے، مجھے خدشہ ہے کہ مزید بہت سے ڈاکٹرز چھوڑ دیں گے، وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور ان کے پاس ملک کے اندر اور ملک سے باہر کام کرنے کے مواقع ہیں۔

دوسری جانب ترجمان ساجد شاہ کا کہنا تھا کہ نگران وزیر صحت ندیم جان شعبہ صحت کے حقیقی پروفیشنل ہیں اور وہ شعبہ صحت میں اصلاحات لانا چاہتے ہیں، مجھے یقین ہے کہ دونوں ہسپتالوں میں سربراہان کے عہدوں پر تعیناتیاں بہترین ممکنہ آپشن ہے، یہ فیصلہ ان زیادہ تر شکایات اور مسائل کو حل کردے گا جو روزانہ ہمیں موصول ہوتی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں