ملک کا خسارہ ختم کرنے کیلئے گیس کی قیمتوں میں اضافہ ضروری تھا، نگران وزیر توانائی

اپ ڈیٹ 31 اکتوبر 2023
نگران وزیر توانائی نے کہا کہ مجبوری کے تحت ملکی مفادات میں یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا — فوٹو: ڈان نیوز
نگران وزیر توانائی نے کہا کہ مجبوری کے تحت ملکی مفادات میں یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا — فوٹو: ڈان نیوز

نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا ہے کہ ملک کا خسارہ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا، ماضی میں گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جاتیں تو آج ہمیں اتنا زیادہ اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

اسلام آباد میں نگران وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے نگران وزیر توانائی محمد علی نے کہا کہ آج کی پریس کانفرنس کا مقصد عوام کو گیس کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات سے آگاہ کرنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مجبوری کے تحت ملکی مفادات میں یہ فیصلہ کرنا ضروری تھا، چند سال قبل تک پاکستان کے اپنے گیس ذخائر اتنے تھے کہ ان ذخائر سے ہی پوری گیس عوام کو دے دی جاتی تھی اور انڈسٹری بھی چلا لیتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ کہ گزشتہ 10 برس سے ہمارے گیس کے ذخائر کم ہوتے جا رہے ہیں، اس لیے ہمیں آر ایل این جی درآمد کرنی پڑتی ہے تاکہ عوام اور انڈسٹری کو گیس فراہم کی جا سکے، یہ مہنگی گیس ہوتی ہے جس کی قیمت ہماری مقامی گیس کی قیمت سے دگنی سے بھی زیادہ ہے اور جب یہ عوام کو فراہم کی جاتی ہے تو اس کی قیمت میں 210 ارب روپے کا فرق آتا ہے۔

نگران وزیر توانائی نے کہا کہ اگر گیس کی قیمتوں میں اضافہ نہ کیا جاتا تو سوئی کمپنیوں کا ریونیو 513 ارب روپے ہوتا جبکہ ضرورت 916 ارب کی تھی، 400 ارب کے اس نقصان میں سے 191 ارب کا نقصان ہمارے اپنے ذخائر پر ہوتا جبکہ 210 ارب کا نقصان آر ایل ین جی پر ہوتا، لہٰذا ملک کا خسارہ ختم کرنے کے لیے گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا ضروری تھا، ماضی میں گیس کی قیمتیں بتدریج بڑھائی جاتیں تو آج ہمیں اتنا زیادہ اضافہ نہ کرنا پڑتا۔

انہوں نے کہا کہ اگر گیس کی قیمتیں نہ بڑھائی جائیں تو گردشی قرضہ بڑھتا رہے گا اور پھر بالآخر ایک دن پاکستان کے پاس ادائیگی کے لیے پیسے ہی نہیں ہوں گے، اس اضافے کے بعد پیٹرولیم سیکٹر میں گردشی قرضہ نہیں بڑھے گا، پاور سیکٹر میں نقصان ہے جو بجٹ سے آتا ہے اور اب ہماری کوشش ہے کہ ہم اس کو بھی ختم کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 10 برسوں سے ہم اپنے تیل اور گیس کے ذخائر اس لیے ایک ہزار ارب سے کم نکال رہے ہیں کیونکہ ہمارے پاس ان کمپنیوں کو دینے کے لیے پیسے ہی نہیں ہیں جو یہ ذخائر نکالتی ہیں اور 4 کے علاوہ تمام غیر ملکی کمپنیاں ملک چھوڑ کر چلی گئیں۔

محمد علی نے کہا کہ جب اپنے ذخائر نہیں نکال پائیں گے تو گیس باہر سے منگوانی ہی پڑے گی جس کی وجہ سے ہمارا امپورٹ بل بڑھ رہا تھا جس پر ہمارا ڈالر خرچ ہورہا تھا، بجٹ خسارہ بڑھ رہا تھا، اس لیے ہمیں ادھار لینا پڑ رہا تھا جس کے سبب ملک میں سود کی شرح اور مہنگائی دونوں بڑھتی چلی گئیں۔

انہوں نے کہا ہم نے گھریلو صارفین میں سے 57 فیصد کا بنیادی ٹیرف نہیں بلکہ 400 روپے کا فکسڈ چارج لگا دیا ہے تاکہ 57 فیصد عوام پر بوجھ نہ پڑے، اس کے بعد ان کا زیادہ سے زیادہ بل 1300 آئے گا، اس سے زیادہ کسی کا نہیں آئے گا، اس کے علاوہ دیگر صارفین کا ٹیرف ان کے استعمال کے مطابق بڑھتا جائے گا، تندور کے لیے گیس کی قیمتوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں