وطن واپس لوٹنے والے بیشتر افغان مہاجرین ذہنی دباؤ کا شکار

02 نومبر 2023
کئی مریض لوز موشن، الٹی، ہائی بلڈ پریشن اور بخار کر علاوہ زکام اور فلو کی شکایت لے کر کیمپ آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی
کئی مریض لوز موشن، الٹی، ہائی بلڈ پریشن اور بخار کر علاوہ زکام اور فلو کی شکایت لے کر کیمپ آتے ہیں—فوٹو: اے ایف پی

خیبر قبائلی ضلع کی لنڈی کوتل تحصیل میں حکومت کی جانب سے بنائے گئے صحت کیمپ کے ڈاکٹرز کے مطابق اپنے ملک لوٹنے والے بیشتر افغان پناہ گزین ذہنی دباؤ اور صدمے کا شکار ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق افغان مہاجرین کی ملک بدری کے لیے لگائے گئے کیمپ میں طبی سہولیات کے سربراہ ڈاکٹر حماد گل مہمند نے کہا کہ تقریباً 30 سے 40 فیصد لوگ ذہنی بیماریوں کا شکار ہیں، ہم نے گزشتہ 2 دنوں میں 500 سے زائد پناہ گزینوں کا معائنہ کیا، ان میں 40 فیصد خواتین ، اتنے ہی مرد جبکہ 20 فیصد بچے شامل ہیں۔

ان کے مطابق کئی مریض لوز موشن، الٹی، ہائی بلڈ پریشر اور بخار کے علاوہ دباؤ اور تھکاوٹ کی وجہ سے بےہوشی، زکام اور فلو کی شکایت لے کر کیمپ آئے۔

مریضوں کو ضرورت پڑنے پر ڈسٹرکٹ ہسپتال منتقل کرنے یا دیگر انتظامی ضروریات کے لیےحمزہ بابا مزار کے نزدیک قائم طبی کیمپ کو تمام ہنگامی سہولیات اور عملے سے لیس ریسکیو 1122 کی ایمبولینس اور عملے کی مدد حاصل ہے۔

حکومت کی جانب سے نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن (نادرا)، ضلعی انتظامیہ، پولیس، ہنگامی رسپونس یونٹ اور فرنٹیئر کور کو کیمپ میں تعینات کیے جانے کے باعث سیکیورٹی کے بھی مناسب انتظامات موجود ہیں۔

ڈاکٹر حماد گل کا کہنا تھاان کے پاس ابتدائی طبی امداد اور ہنگامی صورتحال کے لیے درکار ضروری ادویات اور انجیکشنز موجود ہیں۔

ایک ڈاکٹر، ایک مرد اور خاتون نرس اور 3 پیرامیڈکس پر مشتمل طبی عملہ اُن تمام لوگوں کو میڈیکل سہولیات فراہم کر رہا ہے جو کیمپ میں طورخم بارڈر پر جانے سے پہلے طبی معائنے کے لیے آرہے ہیں اور وہاں سے اپنے آبائی ملک واپس روانہ ہوں گے۔

انہوں نے بتایا کہ یہاں باصلاحیت طبی عملہ نازک صورتحال کے شکار مریضوں کا علاج کر رہا ہے، تقریبا 50 کے قریب ایمرجنسی کیسز کو اب تک ڈسٹرکٹ ہسپتال لنڈی کوتل بھیجا جا چکا ہے۔

ڈاکٹر حماد گل کا کہنا تھا کہ کیمپ ہیلتھ سیکریٹری کے حکم پر قائم ہوا اور اس کی نگرانی ضلع خیبر کے ہیلتھ افسر کر رہے ہیں، غٰرقانونی تارکین وطن کی ملک بدری کا عمل جاری رہنے تک یہ کیمپ فعال رہے گا۔

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت مریضوں کا دباؤ بڑھنے کی صورت میں عملے اور طبی سامان کی تعداد بھی بڑھا دے گی، حکومت انسانی ہمدردی کی بنیاد پر افغان مہاجرین کو طبی سہولیات فراہم کر رہی ہے تاکہ وہ بہتر صحت کے ساتھ سفر کر سکیں اور بیماریوں سے محفوظ رہیں۔

ڈاکٹر حماد گل نے کہا کہ افغانستان سے خصوصی علاج کے لیے مریضوں کی پاکستان آمد بھی جاری ہے، حکومت کی جانب سے غیرقانونی تارکین وطن کی رضاکارانہ واپسی کے لیے دی گئی تاریخ گزر چکی ہے اس لیے واپس لوٹنے والوں کی تعداد بڑھ سکتی ہے، ان میں بہت سے لوگوں میں ذہنی مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔

ماہر نفسیات ڈاکٹر میاں افتخار حسین کا کہنا تھا کہ اپنے آبائی ملک لوٹنے والے بیشتر افغان پناہ گزین ذہنی دباؤ اور صدمے کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نئی افغان نسل پاکستان میں پیدا ہوئی، وہ پاکستان کو ہی اپنا اصل ملک سمجھتے ہیں، افغانستان ان کے لیے ایک غیر ملک ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایسی بہت سی نوجوان لڑکیاں ہیں جو پاکستان میں پیدا ہوئیں اور افغانستان میں اپنے کزنز سے شادی کرلی لیکن اُن کے لیے افغانستان نیا ملک ہے اس لیے اُن کے اندر نئے ملک کو اپنانے میں مشکلات کی وجہ سے مختلف نفسیاتی مسائل پیدا ہوگئے۔

ڈاکٹر افتخار حسین کا کہنا تھا کہ ایسی لڑکیوں کو طبی مراکز میں لایا جاتا ہے جن کو گھبراہٹ، ڈپریشن اور تنہائی کی بیماری ہوتی ہے اور ان کے ماں باپ پاکستان میں آباد ہوتے ہیں، وہ اپنے والدین سے دور ہونے کی باعث اضطراب کا شکار ہوجاتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ امیگریشن بذات خود ایک بڑا نفساتی مرحلہ ہے، نئے ملک کا خوف اور فوبیا، نئے ماحول کو اپنانا اور مختلف طرح کے دباؤ کو برداشت کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔

ڈاکٹر افتخار کا مزید کہنا تھا کہ اپنی زندگی شروع سے شروع کرنا بھی تناؤ کا باعث بنتا ہے، مالی لحاظ سے تنگی اور رہائش کی خراب صورتحال بھی بڑا چیلنج ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہاں رہائش کے حوالے سے درپیش دیگر مسائل میں ثقافتی فرق اور افغان معاشرے میں عائد مختلف پابندیاں بھی شامل ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں