طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا، نگران وزیراعظم
وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے کہا ہے کہ طالبان حکومت آنے کے بعد پاکستان میں خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا، دہشت گرد افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ دہشت گرد افغانستان کی سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں، پاکستان میں ہونے والے حملوں کی معلومات افغان حکومت کو فراہم کی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں عبوری حکومت آنے کے بعد ہمیں قوی امید تھی کہ وہاں دیرپا امن قائم ہوگا، پاکستان مخالف گروہوں خاص طور پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائی جائے گی، انہیں افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ لیکن بدقسمتی سے افغان عبوری حکومت آنے کے بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں 60 فیصد اضافہ ہوا، خودکش حملوں میں 500 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
’انسداد دہشت گردی کی مہم کے دوران 64 افغان شہری ہلاک ہوئے‘
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ گزشتہ 2 برسوں میں 2 ہزار سے زیادہ معصوم پاکستانیوں کی جانیں اس اندوہناک خونریزی کی بھینٹ چڑھ چکیں جس کے ذمہ دار تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد ہیں جو افغانستان کی سرزمین استعمال کرتے ہوئے پاکستان پر بزدلانہ حملے کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس عرصے میں ہونے والے خودکش حملوں میں 15 افغان شہری بھی شامل تھے، اس کے علاوہ 64 افغان شہری انسداد دہشت گردی کی مہم کے دوران قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ لڑتے ہوئے ہلاک ہوئے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تمام حقائق افغان حکام کے علم میں ہیں، پاکستان کی جانب سے تواتر کے ساتھ ہر 15 دن بعد احتجاجی مراسلوں کی صورت میں افغانستان سے منسلک دہشت گردوں کے حملوں سے متعلق تفصیلات فراہم کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کی مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ میں بھی افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کے مراکز اور اس کے پاکستان مخالف سرگرمیوں میں اضافے کا واضح ذکر کیا گیا ہے۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ان تمام حقائق کے باوجود پاکستان نے دنیا بھر میں افغانستان اور افغان عوام کی بھرپور حمایت اور وکالت جاری رکھی، انہیں درپیش مسائل کی جانب سے دنیا کی توجہ مبذول کراتے رہے، افغانستان کو تجارت اور درآمدات کے لیے غیر معمولی مراعات دیں لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی فراخدلی کی قدر نہیں کی گئی اور افغانستان سے اٹھنے والی پاکستان مخالف دہشت گردی کے خلاف کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی گئی۔
انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ فروری 2023 میں ایک دہشت گرد حملے میں 100سے زیادہ معصوم شہریوں کے شہید ہونے کے بعد وزیر دفاع کی قیادت میں اعلیٰ سطح کے وفد نے افغانستان کا دورہ کیا، وفد میں ڈی جی آئی ایس آئی بھی شامل تھے۔
وزیراعظم نے کہا کہ وفد نے افغان عبوری حکومت کو پاکستان کے شدید تحفظات سے آگاہ کرتے ہوئے پاکستان یا ٹی ٹی پی میں سے ایک کو چننے کا دوٹوک عندیہ دیا، اس کے علاوہ مختلف رسمی و غیر رسمی ذرائع کے ذریعے سے افغانستان سے ہونے والی دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کا واضح پیغام دیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ملک کو مطلوب سرکردہ دہشت گردوں کی فہرست بھی افغانستان کو فراہم کی، یقین دہانیوں کے باوجود ان گروہوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ چند مواقع پر دہشت گردوں کی سہولت کاری کے واضح ثبوت بھی سامنے آئے، اس پس منظر میں کوئی ٹھوس اقدام اٹھانے کے بجائے افغان حکومت نے پاکستان کو مشورہ دیا کہ اسے اپنے اندرونی حالات پر توجہ دینی چاہیے۔
’افغان رہنماؤں کے افسوسناک بیانات بعد دہشتگردی میں تیزی معنی خیز ہے‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد پاکستان نے اپنے داخلی معاملات کو اپنی مدد آپ کے تحت درست کرنے کا فیصلہ کیا، ان حالات میں پاکستان کے حالیہ اقدمات غیر متوقع اور حیران کن نہیں ہیں، پاکستان میں بے امنی پھیلانے میں بڑا کردار غیر قانونی تارکین وطن کا ہے، اس لیے ریاست نے ان غیر قانونی شہریوں کو یکم نومبر سے اپنے ممالک میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
نگران وزیراعظم نے کہا کہ ان غیر قانونی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے جن میں اکثریت افغان شہریوں کی ہے، پاکستان نے اب تک ان کی عزت و وقار کے ساتھ رضاکارانہ واپسی کو ترجیح دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بے نامی املاک اور غیر قانونی سرمائے کا دہشت گردی اور جرائم سے گہرا رشتہ ہے، حالیہ مہم میں یہ نکتہ بھی مدنظر رکھا جائے گا اور ان معاملات میں قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی، اس ضمن میں چند افغان رہنماؤں کے بیانات افسوسناک ہیں، ان بیانات کے بعد پاکستان میں دہشت گردانہ حالیہ واقعات میں غیر معمولی تیزی نہ صرف معنی خیز ہے بلکہ ریاست پاکستان کے خدشات کی توثیق بھی کرتی ہے۔
’افغان حکومت دہشت گردی میں ملوث پاکستانیوں کو ہمارے حوالے کرے‘
ان کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان دو خود مختار ممالک ہیں، ان کے تعلقات کو اسی طرح سے استوار ہونا چاہیے جس طرح دنیا کے باقی ممالک کے ساتھ رکھے جاتے ہیں، افغانستان کے ساتھ ٹرانزٹ ٹریڈ کو جاری رکھیں گے۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ افغان رہنماؤں کی جانب سے سامنے آنے والے بیانات کے بعد ضروری سمجھا گیا کہ حکومت پاکستان اپنا مؤقف واضح کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم افغان عبوری حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ بھی دہشت گردی میں ملوث وہاں غیر قانونی طور پر مقیم پاکستانیوں کو ہمارے حوالے کرے، پاکستان ایسے تمام لوگوں کو وصول کرنے کے لیے تیار ہے، دوسری صورت میں ہم افغان حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ ٹی ٹی پی کی سرکوبی کے لیے تمام اقدامات عمل میں لائے گی۔
افغان شہریوں کو موجودہ صورتحال کے مطابق رہنے کی اجازت دینے کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ یہ مؤقف غیر منطقی اور غیر قانونی ہے، یہ کچھ رہنماؤں کا مؤقف تو ہو سکتا ہے لیکن اس کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، اس طرح کی آمد و رفت کی کیسے اجازت دی جا سکتی ہے۔
’دہشت گردی میں اضافے کا الیکشن سے تعلق نہیں ہے‘
نگران وزیراعظم نے کہا کہ جن افغان شہریوں کے پاس دستاویز ہیں، ان کو واپس بھیجنے کی پالیسی نہیں ہے، رضاکارنہ طور پر اب تک ڈھائی لاکھ لوگوں کا جانا بہت بڑی بات ہے۔
انوار الحق کاکٹر نے کہا کہ تارکین وطن کے حوالے سے پاکستان پر کسی کا کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ہے، کوئی ملک کیوں اور کیسے دباؤ ڈالے گا، حکومتیں ایک دوسرے سے مختلف درخواستیں کرتی ہیں، ان کو مطالبہ نہیں کہا جا سکتا۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں اضافے کا الیکشن کی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہے، دہشت گردوں نے اعلان جنگ کر رکھا ہے، ہمیں اس کا جواب دینے کی تیاری رکھنی چاہیے۔