’یار سکندر سچ بتا اتنا سستا فلیٹ کیسے مل گیا اور وہ بھی شاداب نگر کی پہاڑی پر؟‘ جب علی کے اصرار کرنے پر سکندر نے فلیٹ کی اصل قیمت بتائی تب اس نے بے صبری سے پوچھا۔ ’ہاں یار جھوٹ تھوڑی بولوں گا تجھ سے اور ویسے بھی باس نے بتایا تھا کہ اپنا نیا آئی ٹی سینٹر شاداب نگر کے پاس ہی بننے والا ہے تو آفس دیر سے پہنچنے کی ٹینشن بھی ختم‘۔

سکندر کے بتاتے ہی علی تقریباً سیٹ سے اچھل پڑا۔ ’یہ تو بہترین کام ہوگیا۔ لیکن چڑھائی اور اترائی میں ٹائم لگے گا اور سڑک بھی تو خراب ہے‘، علی نے ساتھ ہی اپنا خدشہ ظاہر کیا۔ ’ہر چیز کی ٹینشن نہ لیا کر بھائی، شہر میں ٹریفک میں بھی تو پھنسنے کی عادت ہوگئی ہے نا، ان سب باتوں کے بھی عادی ہوجائیں گے‘، یہ کہتے ہوئے سکندر نے گاڑی چھوٹے گیئر میں ڈالی اور وہ شاداب نگر کی پہاڑی چڑھنے لگے۔

علی اور سکندر بچپن سے گہرے دوست تھے اور اب ایک ہی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ دونوں کا خواب والدین کے گھر سے الگ اپنا گھر لے کر رہنے کا تھا جو آج کل ہر نوجوان کا ہوتا ہے لہٰذا پیسے جوڑ کر دونوں نے شاداب نگر کے پُر فضا مقام پر سستے داموں ایک فلیٹ خرید کر اپنا خواب پورا کیا تھا۔

’بلڈنگ تو بڑی شاندار ہے یار‘، علی نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔ ’فلیٹ بھی شاندار ہے بھائی پانچویں فلور پر سب سے اوپر۔ بالکونی سے سارا شاداب نگر نظر آتا ہے‘، سکندر نے سامان ڈگی سے نکالتے ہوئے کہا اور دونوں لفٹ میں سوار ہوگئے۔ فلیٹ واقعی شاندار تھا سامان رکھنے کے بعد علی کچھ ضرورت کی چیزیں لینے باہر نکلا۔ اس پہاڑی علاقے میں آبادی کم تھی اور لوگ بھی اکا دکا نظر آرہے تھے۔

اشرف سپر اسٹور میں داخل ہوکر علی نے کچھ پانی کی بوتلیں، ناشتے کا سامان اور چپس کے پیکٹ خریدے۔ ’نئے آئے ہیں آپ یہاں بیٹا؟‘، کاؤنٹر پر اسٹور کے مالک اشرف بھٹی نے بل بناتے ہوئے علی سے پوچھا۔ ’جی انکل، فلیٹس والی بلڈنگ میں‘۔ علی نے سامان کا شاپر سنبھالتے ہوئے جواب دیا۔ ’اچھا اچھا! کون سے فلیٹ میں آئے ہو بیٹا‘، اشرف نے باقی پیسے علی کو لوٹاتے ہوئے پوچھا۔ ’513 نمبر میں انکل‘، علی نے جواب دیتے ہوئے اشرف بھٹی کے چہرے کا رنگ بدلتا ہوا محسوس کیا۔ ’کیوں انکل؟ خیریت؟‘، علی کے پوچھنے پر اشرف کے ماتھے پر پڑی شکنیں مزید گہری ہوگئیں اور کہنے لگا، ’کچھ نہیں بیٹا، بس سنا ہے وہ فلیٹ ذرا بھاری ہے‘۔

’سنی سنائی باتیں ہیں کہ 513 نمبر فلیٹ بھاری ہے‘
’سنی سنائی باتیں ہیں کہ 513 نمبر فلیٹ بھاری ہے‘

علی اسٹور کے دروازے پر ہی رک گیا، ’آپ کا مطلب اس فلیٹ پر سایہ وغیرہ ہے کیا؟‘ اشرف اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے بولا، ’ارے ایسا کچھ نہیں بیٹا بس سنی سنائی باتیں ہیں تم آرام سے رہو وہاں اور ہاں کیا نام بتایا تم نے اپنا؟‘ علی نے اپنا پورا نام بتایا اور اسٹور سے باہر نکل آیا۔ اشرف نے سڑک کے آخری کونے تک علی کو واپس جاتے ہوئے دیکھا اور پھر ایک رجسٹر نکال کر کچھ لکھنے لگا۔

پورا دن دو کمروں کے اس فلیٹ کی سیٹنگ کرتے ہوئے وہ دونوں بہت تھک گئے تھے۔ رات کو گہری نیند سے ایک دم علی کی آنکھ کھلی۔ اسے لگا جیسے کوئی اسے دیکھ رہا ہے۔ اشرف کی بات بھی اس کے ذہن میں تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی کھڑکی کی جانب اس نے نظر دوڑائی۔ اسے ایک بونا بالکونی کی کھڑکی میں کھڑا نظر آیا جو اسی کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں کھچی ہوئی تھیں اور ناک چپٹی تھی بالکل کسی چینی شخص کی طرح۔ وہ گھبرا کر اٹھا اور سکندر کے کمرے کی طرف بھاگا لیکن سکندر اسے لاؤنج میں ہی مل گیا۔ وہ بھی گھبرایا ہوا تھا۔

دونوں نے اس چینی بھوت کو کھڑکی پر کھڑے انہیں گھورتے ہوئے دیکھا تھا۔ ہمت کرکے انہوں نے بالکونی کا دروازہ کھولا مگر وہاں کوئی نہیں تھا۔ اتنے میں دھماکا ہوا اور لائٹ چلی گئی اور چھت پر کسی کے دوڑنے کی آوازیں آنے لگیں۔ علی نے گاڑی کی چابی اٹھائی اور سکندر سے فوراً نکلنے کے لیے کہا۔ لفٹ بند تھی چنانچہ دونوں سیڑھیوں کی طرف بھاگے۔ نیچے اترتے وقت انہیں لگا کہ کوئی اور بھی ان کے پیچھے آرہا ہے۔ علی نے پلٹ کر دیکھا تو کوئی نہیں تھا۔ شاید وہم ان پر مکمل طور پر حاوی ہوچکا تھا۔

رات کو بالکونی کی کڑکی پر کھڑا ایک بونا شخص علی اور سکندر کو گھور رہا تھا
رات کو بالکونی کی کڑکی پر کھڑا ایک بونا شخص علی اور سکندر کو گھور رہا تھا

’یار اس وقت جائیں گے کہاں‘، سکندر نے گاڑی کے پاس پہنچ کر ہانپتے ہوئے کہا۔ ’کہیں بھی رک کر گاڑی میں ہی رات گزار لیں گے لیکن اس منحوس جگہ سے نکلتے ہیں‘، علی نے گاڑی اسٹارٹ کرتے ہوئے جواب دیا۔ علی گاڑی بھگاتے ہوئے موبائل سے اپنے باپ کا نمبر ملانے کی کوشش کررہا تھا کہ اچانک اترائی پر ایک موڑ کاٹتے ہوئے اسے ایمرجنسی بریک لگانے پڑے کیونکہ بیچ سڑک میں ایک بچہ کھڑا تھا۔ گاڑی قابو سے باہر ہوگئی اور کھائی کی طرف مڑ گئی۔

سکندر سیٹ بیلٹ نہ باندھنے کی وجہ سے قلابازیاں کھاتی گاڑی سے نکل کر کھائی کی گہرائیوں میں گم ہوچکا تھا۔ علی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ بند ہوتی آنکھوں سے پہلے اس نے دیکھا کہ وہ کوئی بچہ نہیں بلکہ وہی چینی شکل والا بھوت تھا جو اس کی جانب مسکراتا ہوا بڑھ رہا تھا۔

چینی بھوت نے علی کی شہ رگ پر انگلی رکھی۔ تسلی کر لینے کے بعد اس نے فون نکال کر ایک نمبر ڈائل کیا۔ دوسری طرف سے آواز آئی، ’ہاں چینے؟ کام ہوگیا؟‘ چینے نے گاڑی کی تلاشی لیتے ہوئے جواب دیا، ’ہاں اشرف بھائی، ایک تو کھائی میں گیا دوسرا یہیں ہے‘۔ ’ٹھیک ہے جلدی سامان اکٹھا کرکے نکلو وہاں سے اور رمضان سے کہنا زیادہ دھماکے نہ کیا کرے۔ بلڈنگ کے باقی لوگ بھی چلے گئے تو کاروبار اس کا باپ چلائے گا‘، اشرف نے بھڑکتے ہوئے کہا۔ چینے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رمضان، علی کی جیبوں کی تلاشی لے رہا تھا۔ ’ٹھیک ہے اشرف بھائی میں اسے کہہ دوں گا، بس نکلتے ہیں‘ اور رابطہ منقطع ہوگیا۔

رمضان کو اشرف بھائی کی بات سمجھاتے ہوئے چینے نے اس سے علی کی جیب سے ملنے والا موبائل لیا اور اسے موٹی سی گالی دیتے ہوئے کہا کہ اگلی بار موبائل ملتے ہی اسے فوراً سوئچ آف کردیا کرے۔

سڑک پر سامنے بچے کو کھڑا دیکھ کر گاڑی بےقابو ہوگئی اور کھائی میں جاگری
سڑک پر سامنے بچے کو کھڑا دیکھ کر گاڑی بےقابو ہوگئی اور کھائی میں جاگری

’صاحب آپ نئے آئے ہیں یہاں‘، اشرف نے اس ادھیڑ عمر شخص کو بقایا پیسے واپس کرتے ہوئے پوچھا۔ ’ہاں آج ہی شفٹ ہوا ہوں، فلیٹ نمبر 513 میں‘، آدمی نے اشرف کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ کچھ لمحے اشرف کا سپاٹ چہرہ دیکھنے کے بعد اس نے پوچھا،’ کیوں؟ کوئی مسئلہ ہے کیا؟’ اشرف نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ منہ پر سجاتے ہوئے کہا، ’کچھ نہیں صاحب، بس سنی سنائی بات ہے، کچھ لوگ اس فلیٹ کو بھاری کہتے ہیں‘۔ آدمی نے ایک دم قہقہ لگایا، ’اچھا ہے، چلو شاید میرے رہنے سے ہلکا ہوجائے‘، اور باہر نکلنے لگا۔ ’کیا نام بتایا آپ نے اپنا صاحب‘، اشرف نے پیچھے سے آواز دی۔ ’مصطفیٰ‘، آدمی نے اسٹور سے باہر نکلتے ہوئے جواب دیا۔

اشرف نے مصطفیٰ کو سڑک کے آخری کونے تک جاتے ہوئے دیکھا اور پھر ایک رجسٹر نکال کر اس پر اندراج کرنے لگا۔ نمبر 25، نام: مصطفیٰ۔ رجسٹر پر لکھے باقی 24 ناموں پر اس نے ایک نظر دوڑائی جن میں سے کچھ کے آگے لال قلم سے کراس کے نشان لگے ہوئے تھے۔ مصطفیٰ کے نام سے اوپر دو نام لکھے تھے جن کے آگے لال نشان لگے تھے۔

نمبر 23، نام: سکندر

نمبر 24، نام: علی زیدی

اشرف نے مصطفیٰ کو سڑک کے آخری کونے تک جاتے ہوئے دیکھا
اشرف نے مصطفیٰ کو سڑک کے آخری کونے تک جاتے ہوئے دیکھا

مصطفیٰ نے فلیٹ میں آکر کافی بنائی اور آرام دہ کرسی کے ساتھ رکھی میز پر کپ رکھ دیا۔ پھر پینٹ میں اڑسا ہوا لمبی نال کا ریوالور اور بٹوا بھی نکال کر میز پر رکھا۔ اس نے ایک لمبی سانس خارج کی اور ٹانگیں پھیلا کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد کافی کا ایک گھونٹ بھر کر اس نے بٹوہ اٹھا کر کھولا۔ ایک طرف اس کا سروس کارڈ تھا جس پر اس کا نام درج تھا:’ انسپکٹر مصطفیٰ زیدی’، اور دوسری طرف اس کے اپنے بیٹے علی زیدی کے ساتھ تصویر تھی جس کو وہ حسرت سے تکنے لگا۔ بٹوہ بند کرکے اس نے ریوالور اٹھایا اور جھٹکا دے کر اس کا چیمبر کھولا۔ 6 گولیوں والے اس چیمبر میں وہ ہر دو گولیاں ڈالنے کے بعد ایک نام بڑبڑاتا، چینا، اشرف، رمضان۔

بھرا ہوا ریوالور میز پر رکھ کر انسپیکٹر مصطفیٰ زیدی نے کافی کا مگ اٹھایا اور دونوں ہاتھوں میں پکڑ کر گود میں رکھ لیا۔ اس کی نظریں بالکونی کی کھڑکی کی طرف تھیں۔ اسے اب صرف اندھیرا پھیلنے پر شاداب نگر کے چینی بھوت کے آنے کا انتظار کرنا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں