سارہ انعام قتل کیس: تمام تر شواہد سے ملزم کا جرم ثابت ہوتا ہے، مدعی وکیل کے عدالت میں دلائل

اپ ڈیٹ 16 نومبر 2023
مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو عدالت پیش کیا گیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز
مرکزی ملزم شاہنواز امیر کو عدالت پیش کیا گیا— فائل فوٹو: ڈان نیوز

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کے دوران مقتولہ کے وکیل نے قتل کے ملزم شاہ نواز امیر کو سزائے موت سنانے کی استدعا کر دی۔

سیشن جج ناصر جاوید رانا نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت کی۔

گزشتہ روز سماعت میں سارہ انعام کے وکیل راؤ عبدالرحیم کے دلائل مکمل نہیں ہو سکے تھے، انہوں نے آج حتمی دلائل کا دوبارہ آغاز کیا، مدعی مقدمہ کے وکیل کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کیا۔

مرکزی ملزم شاہنواز میر کو عدالت پیش کیا گیا، سارہ انعام کے والد انعام الرحیم اور شریک ملزمہ ثمینہ شاہ بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔

وکیل راؤ عبدالرحیم نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ فرانزک رپورٹ کے مطابق ملزم کے موبائل سے 2 تصاویر ملیں جن میں سے ایک تصویر مقتولہ کی تھی، اس تصویر میں مقتولہ کی لاش کمرے میں تھی اور اس پر چادر پڑی تھی، آلہ قتل ’ڈمبل‘ بھی تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

راؤ عبدالرحیم نے عدالت کو آگاہ کیا کہ جائے وقوع ملزم کے گھر کا ہے، ملزم کے مطابق سارہ انعام کے ساتھ کوئی جھگڑا نہیں تھا، سارہ انعام خوش تھیں، ملزم کے موبائل سے 9 تاریخ کا ڈاکومنٹ ملا اس وقت سارہ انعام پاکستان میں نہیں تھی، 9 تاریخ کو طلاق نامہ جمع کروایا گیا، ملزم پارٹی مکمل طور پر لاجواب ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ملزم کے موبائل سے مقتولہ کی لاش کی تصویر برآمد ہوئی، یہ تصویر واٹس ایپ پر بھی بھیجی گئی تھی، اس کے مطابق صبح 5 بجے سارہ انعام کی موت واقع ہو چکی تھی، ملزمان کا موقف ہے کہ پولیس کو ہم نے اطلاع دی، گھر میں صرف 3 افراد (ملزمہ ثمینہ شاہ، شاہنواز میر اور سارہ انعام) موجود تھے۔

راؤ عبدالرحیم نے کہا کہ 2018 کی ڈکیتی میں 2022 میں بندہ قتل نہیں ہو سکتا، چشم دید گواہ جھوٹ بول سکتا ہے لیکن ڈاکومنٹس جھوٹ نہیں بول سکتے، انہوں نے کھانا کھایا تھا لیکن ڈاکٹر نے تو کہا کہ کھانا نہیں کھایا۔

انہوں نے کہا کہ سارہ انعام جب پہنچی تو جھگڑا ہوا، سارہ انعام کا موبائل توڑا گیا، وہ ملزمان کے رحم و کرم پر تھی، سارہ انعام کا موبائل لان میں سے ٹوٹی ہوئی حالت میں ملا، سارہ انعام کے جسم پر زخموں کے نشانات تھے، ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی، جب بچی کو اس تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ تڑپی ہو گی، کیسے ممکن ہے کہ ملزمہ ثمینہ شاہ نے کچھ نہیں سنا، پوسٹ مارٹم کے مطابق تمام زخم موت واقع ہونے سے پہلے کے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے کہا کہ سارہ انعام کو طلاق نہیں دی، فرانزک رپورٹ کے مطابق واٹس ایپ میسج میں طلاق دی گئی، 2 دن پہلے سے ڈی وی آر اترا ہوا ہے، کوئی تو وجہ دے دیتے، موبائل کا پاسورڈ نہیں دیا گیا، پاسورڈ کے بغیر ڈیٹا لینا ممکن نہیں۔

شاہنواز امیر کو سزائے موت دینے کی استدعا

کمرہ عدالت مں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے مدعی کے وکیل راؤ عبدالرحیم کو تصاویر دکھانے میں مشکلات کا سامنا رہا، دریں اثنا راؤ عبدالرحیم نے ملزم شاہنواز امیر کو سزائے موت دینے کی استدعا کر دی، انہوں نے کہا کہ تمام تر شہادتوں اور ثبوتوں کے مطابق یہ جرم ثابت ہوتا ہے، پاکستان میں ایسا یہ دوسرا کیس ہے، اس سے پہلے نور مقدم کا کیس موجود ہے۔

سارہ انعام کے وکیل راؤ عبدالرحیم کے دلائل مکمل ہونے پر پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ واقعہ ملزمان کی جانب سے نہیں پولیس کی جانب سے رپورٹ ہوا، مقتولہ ایک پڑھی لکھی اور قابل خاتون تھیں، 18 جولائی 2022 کو سارہ انعام کی ملزم شاہنواز امیر کے ساتھ شادی ہوئی۔

پراسیکیوٹر رانا حسن نے کہا کہ واقعے کے روز ملزم سے موبائل فون برآمد ہوئے، 18 ستمبر کو سارہ انعام کی کال آئی، اس دوران پراسیکیوٹر رانا حسن نے سارہ انعام اور ملزم شاہنواز کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ٹرانسکرپٹ عدالت میں پڑھ کر سنایا۔

انہوں نے کہا کہ متعد مرتبہ ملزم شاہنواز کی جانب سے سارہ انعام کو بلاک کیا گیا، ملزم شاہنواز کی جانب سے سارہ انعام کو دھمکایا گیا، سارہ صرف ایک درخواست کر رہی تھی کہ میرے والدین کو باعزت طریقے سے رخصت کرنے کا موقع دو۔

انہوں نے عدالت کو پیغامات پڑھ کر سنائے جس میں سارہ نے پوچھا تھا کیا شاہنواز آپ رخصتی نہیں چاہتے؟ جواب میں ملزم شاہنواز نے کہا تھا جی نہیں۔

پراسیکیوٹر رانا حسن نے عدالت کو بتایا کہ اس چیٹ میں 3 میسجز ڈیلیٹ کیے گئے ہیں جو ممکنہ طور پر طلاق دینے کے حوالے سے تھے، 20 ستمبر کو شاہنواز کی جانب سے آخری میسج کیا گیا، 22 ستمبر کو ساڑھے 6 بجے سارہ انعام پاکستان پہنچیں اور ملزمان کے ساتھ رہیں، قتل کا واقعہ ہوا پولیس پہنچی تو ملزمہ ثمینہ شاہ نے بتایا کہ بیٹے شاہنواز نے قتل کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ واقعے کے بعد جائے وقوع سے شواہد اکٹھے کیے گئے، سارہ انعام کے جسم پر موجود زخموں سے ملزم شاہنواز امیر کا ڈی این اے پایا گیا، ڈی این اے خون یا پیسنے سے منتقل ہو سکتا ہے، شاہنواز امیر کی شرٹ اور ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے، ملزم کی نشاندہی پر آلہ قتل ڈمبل برآمد ہوا جس پر خون اور بال موجود تھے، جائے وقوع سے 2 افراد کا ڈی این اے ملا، ایک سارہ انعام اور دوسرا ملزم شاہنواز امیر کا ڈی این اے تھا، ملزم کی نشان دہی پر پاسپورٹ اور موبائل فون برآمد کرائے۔

اس دوران عدالت نے رانا حسن عباس سے استفسار کیا کہ کتنا وقت لگے گا مزید؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ 20 منٹ مزید لگیں گے۔

سیشن جج ناصر جاوید نے کہا کہ مجھے ایک میٹنگ میں جانا ہے، ہفتے کو سماعت رکھ لیتے ہیں، تاہم وکیل صفائی کی استدعا پر سماعت پیر تک ملتوی کر دی گئی۔

سارہ انعام قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ 22 ستمبر کو رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعے کو صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔

تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز عامر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کیا اور اس کی لاش باتھ روم کے باتھ ٹب میں چھپا دی۔

پولیس نے اس کی اطلاع پر لاش کو برآمد کیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متوفی کے سر پر زخم پائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا پولیس ٹیم نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کیا تھا جو ایک بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں