پشاور: صوبے میں غیر رشتہ داروں کے اعضا عطیہ کرنے پر پابندی، گردے کے مریض مشکلات کا شکار

اپ ڈیٹ 23 نومبر 2023
دنیا بھر میں غیر رشتہ داروں کی جانب سے اعضا دینے کی اجازت دے دی گئی ہے — فائل /فوٹو: اے ایف پی
دنیا بھر میں غیر رشتہ داروں کی جانب سے اعضا دینے کی اجازت دے دی گئی ہے — فائل /فوٹو: اے ایف پی

خیبرپختونخوا میں ماہرین کا کہنا ہے کہ گردوں کے مرض میں مبتلا 30 فیصد سے زائد مریضوں کو پیوندکاری کے لیے اپنے خاندان میں ڈونرز نہیں مل رہے ہیں کیونکہ قانون کے تحت غیر رشتہ داروں کو اعضا عطیہ کرنے کی اجازت نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کےمطابق انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز حیات آباد میڈیکل کمپلیکس کے ٹرانسپلانٹ سرجن ڈاکٹر شاہد احمد خان کا کہنا تھا کہ ہر تیسرے مریض کو قریبی رشتہ داروں میں ڈونر نہ ملنے کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے اور قانون خونی رشتہ داروں کے علاوہ کسی کو بھی اعضا عطیہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اسی لیے مریضوں کے پاس ڈائیلاسز جاری رکھنے کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں بچتا، جو انتہائی مہنگا ہے اور مریض 5 سال سے زیادہ زندہ نہیں رہ پاتے۔

انہوں نے کہا کہ اگر غیر رشتہ داروں کی جانب سے اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دے دی جائے تو مریضوں کی جان بچانے کے ساتھ ساتھ ملک میں انسانی اعضا کی غیر قانونی پیوند کاری پر بھی قدغن لگ سکتی ہے۔

ڈاکٹر شاہد احمد خان نے بتایا کہ اکثر غیر قانونی پیوندکاری غیر تربیت یافتہ لوگ کرتے ہیں اور بعض دفعہ ڈونرز اور وصول کنندہ دونوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جوڑے والے اعضا کے عطیے میں زندہ ڈونرز اور ان کے وصول کنندگان ٹرانسپلانٹ کے لیے مطابقت نہیں رکھتے، تاہم ہر جوڑے کا عطیہ دہندہ دوسرے جوڑے کے وصول کنندہ کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، اگر عطیہ کرنے والے اور وصول کنندگان دونوں راضی ہوں تو ڈاکٹر جوڑے کے اعضا کے عطیہ پر غور کر سکتے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت نے 2014 میں خیبر پختونخوا میڈیکل ٹرانسپلانٹیشن ریگولیٹری اتھارٹی ایکٹ منظور کیا تھا لیکن صوبے میں غیر قانونی ٹرانسپلانٹس کے کیسز سامنے آنے کے بعد اس قانون کو نافذ کرنے کے لیے 2016 میں اپنے قوانین نوٹیفائی کردیے تھے، اس قانون کا مقصد قانونی ٹرانسپلانٹیشن کی اجازت دینا اور غیر تربیت یافتہ اور غیر قانونی ماہرین کی مریضوں سے بھاری رقوم وصول کر کے پیوندکاری کرنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کرنا تھا۔

رپورٹ کے مطابق صوبے کے نجی اور سرکاری ہسپتالوں میں 300 سے زائد پیوندکاری کی جاچکی ہیں مگر قریبی رشتہ داروں کے درمیان ڈونرز کی تلاش گردوں کے ٹرانسپلانٹ میں ایک رکاوٹ ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف کڈنی ڈیزیز میں حالیہ مہینوں میں 24 ٹرانسپلانٹس کرنے والے ڈاکٹر شاہد احمد خان نے بتایا کہ تمام ڈونرز قریبی رشتہ دار تھے، انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ وہ غیر رشتہ داروں کے اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دیں تاکہ خراب گردے کے مرض میں مبتلا افراد کی جانیں بچائی جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سعودی عرب میں حکومت لوگوں کو آگے بڑھنے اور اعضا عطیہ کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہے، ڈونرز کو ان کے اچھے عمل کی وجہ سے 5 ہزار ریال دیے جاتے ہیں، عطیہ دہندگان یا تو ڈائریکٹ ہوتے ہیں یا ان ڈائریکٹ، ڈائریکٹ کا مطلب وہ کسی مخصوص مریض کو اعضا فراہم کروانے آتے ہیں اور ان ڈائریکٹ کا مطلب یہ ہے کہ وہ کسی بھی مریض کو اعضا عطیہ کرنے کے لیے اندراج کرواتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد خان کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ عام ہے اور وہ حکومت کو اس بات پر رضامند کرنا چاہتے ہیں کہ سعودی عرب کی طرز پر غیر قانونی ہائی رسک اور زیادہ لاگت والے ٹرانسپلانٹس روکنے کے لیے قریبی رشتہ داروں کے علاوہ دیگر لوگوں کو بھی اعضا عطیہ کرنے کی اجازت دی جائے۔

دنیا بھر میں عطیہ دہندگان کی کمی کی وجہ سے بہت سے ممالک نے پیئرڈ اعضا کے ٹرانسپلانٹ یا غیر رشتہ داروں کی جانب سے اعضا دینے کی اجازت دے دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں اعضا کے عطیات کے کلچر کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے، تقریباً 30 فیصد لوگ گردے کی پیوند کاری نہیں کروا سکتے کیونکہ ان کے پاس گردہ دینے کے لیے رشتہ دار موجود نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم مرحوم لوگوں کے اعضاعطیہ کرنے پر بھی کام کر رہے ہیں لیکن اس کے لیے عوامی بیداری کی ضرورت ہے، ہمیں خاندانوں کو مشورہ دینے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنے وفات پاجانے والے افراد سے ایسے مریضوں میں گردوں کی پیوند کاری کرنے کی اجازت دیں جنہیں زندہ رہنے کے لیے ان کی سخت ضرورت ہے۔

سعودی عرب کے کنگ فیصل ہسپتال میں سرجن کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر شاہد نے کہا کہ حکومت کو ایسے اعضا عطیہ کرنے پر راضی ہونے والے خاندانوں کو معاوضہ دینا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم اس سلسلے میں میڈیکل ٹرانسپلانٹیشن ریگولیٹری اتھارٹی کو تجویز بھیجیں گے کیونکہ لوگ گردے فیل ہونے سے مر رہے ہیں کیونکہ قانون غیر رشتہ داروں کو اعضا عطیہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا، جوڑے کے اعضا کا عطیہ مریضوں کی سہولت کے لیے ایک بہتر آپشن ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں