نگران حکومتِ پنجاب نے بھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا

25 نومبر 2023
سپریم کورٹ میں درخواست ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق کے توسط سے دائر کی گئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
سپریم کورٹ میں درخواست ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق کے توسط سے دائر کی گئی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

نگران حکومت پنجاب نے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دینے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ کورٹ مارشل کے ذریعے ٹرائل سے قانون کے تحت دیے گئے حقوق میں کوئی کمی نہیں آتی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق چیف سیکرٹری پنجاب نے عدالت عظمیٰ کے 23 اکتوبر کے متفقہ فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے مزید کہا ہے کہ اس طرح کے ٹرائلز تعصب یا قانون کی خلاف ورزی نہیں کرتے یا انصاف کے اصولوں، قانون پر عمل اور منصفانہ سماعت کے حق کے منافی نہیں ہیں۔

یاد رہے کہ 23 اکتوبر کے فیصلے میں 9 مئی کے پُرتشدد واقعات میں مبینہ طور پر ملوث ہونے پر 103 شہریوں کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کو آئین کے خلاف قرار دیا گیا تھا۔

وفاقی حکومت، وزارت دفاع، نگران حکومت خیبرپختونخوا اور نگران حکومت بلوچستان کی جانب سے پہلے ہی اسی طرح کی انٹرا کورٹ اپیلیں سپریم کورٹ میں دائر کی جاچکی ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خالد اسحٰق کے توسط سے دائر کی گئی اپیل میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کورٹ مارشل محض پاکستان آرمی ایکٹ 1952کے تحت مسلح افواج کے اہلکاروں اور اداروں کے تحفظ سے متعلق جرائم کی سماعت کے لیے ایک مؤثر عدالتی ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ کئی عدالتی اور نیم عدالتی فورمز، جو عام ضلعی عدالتوں سے آزاد ہیں، پاکستان آرمی ایکٹ کی طرح مختلف ایکٹس کے تحت بنائے گئے ہیں۔

درخواست میں مزید کہا گیا کہ اس طرح کے بہت سے فورمز کی پالیسی اور اسٹریٹجک وجوہات کی بنا پر خصوصی طریقہ کار اور قانونی تقاضے ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے ایسے فورمز قانونی عمل کے اصول کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔

یاد رہے کہ جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 23 اکتوبر کو اس بات پر زور دیا تھا کہ 9 مئی کے حملوں میں ملوث سویلین ملزمان کے مقدمات اب سے فوجی عدالتوں میں نہیں چلائے جائیں گے بلکہ بلکہ ملک میں موجود مجاز دائرہ اختیار کی فوجداری عدالتوں میں چلائے جائیں گے۔

منصفانہ ٹرائل کا حق

نگران حکومت پنجاب نے درخواست میں مؤقف اختیار کیا کہ پاکستان آرمی ایکٹ اور آرمی رولز ملزمان کے منصفانہ ٹرائل کے حقوق کو ہر ممکن تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

کورٹ مارشل اور سول/سیشن عدالتوں کے قانونی اور طریقہ کار کے میٹرکس کا ایک جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ’برخلاف‘ نہیں ہیں، درحقیقت جن افراد پر آرمی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلایا جاتا ہے، وہ عام سول/سیشن ٹرائل کی طرح قانون اور طریقہ کار کے لحاظ سے ایک ہی طرح کے عمل سے گزرتے ہیں۔

خاص طور پر کوڈ آف کرمنل پروسیجر 1898 کی دفعات (جو کہ فرد جرم عائد کرنے اور شواہد کی ریکارڈنگ سے متعلق ہیں) کورٹ مارشل کے تحت ہونے والے مقدمے میں سیشن جج کے ذریعے ٹرائل کی طرح لاگو ہوتی ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت ٹرائلز ہرممکن حد تک عدالتی کارروائیوں کے روایتی طریقوں کے مطابق کیے جاتے ہیں جوکہ پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ نے قائم کیے ہیں۔

منظم حملے

درخواست میں دعویٰ کیا گیا کہ 9 مئی کے واقعات میں منظم اور مربوط انداز میں فوجی تنصیبات اور تنصیبات پر ٹارگٹ حملے شامل ہیں، یہ حملے ملک کی مسلح افواج کو کمزور کرنے اور ملک کی داخلی سلامتی کو متاثر کرنے کی ایک سوچی سمجھی کوشش کا اشارہ دیتے ہیں۔

درخواست میں کہا گیا کہ یہ اس حقیقت سے عیاں ہے کہ بہت کم وقت میں متعدد فوجی تنصیبات پر بیک وقت حملے کیے گئے، اُس روز صرف پنجاب میں 62 پُرتشدد واقعات رپورٹ ہوئے جن میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے 184 اہلکاروں سمیت تقریباً 250 افراد زخمی ہوئے، مزید برآں 98 سرکاری گاڑیوں سمیت 139 گاڑیوں کو جزوی یا مکمل نقصان پہنچا۔

درخواست میں عدالت کو آگاہ کیا کہ پُرتشدد واقعات کے نتیجے میں کُل نقصان کا تخمینہ 2.5 ارب روپے لگایا گیا ہے، جس میں فوجی اداروں، ساز و سامان اور گاڑیوں کو ہونے والا 1.9 ارب روپے کا نقصان بھی شامل ہے۔

9 مئی کے واقعات کے نتیجے میں متعدد ایف آئی آرز مجرموں کے خلاف درج کی گئیں جبکہ چند دیگر ایف آئی آرز میں واضح طور پر پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعات کا ذکر نہیں کیا گیا، ان واقعات میں ملوث متعدد افراد کو پاکستان آرمی ایکٹ اور فوج کے قوانین کے مطابق فوجی تحویل میں لیا گیا جن پر ان قوانین میں موجود جرائم کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں