حکومت کراچی کے شاپنگ مال میں آتشزدگی کے ’قصوروار عہدیداران‘ کےخلاف کارروائی شروع کرے، سندھ ہائیکورٹ

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2023
آر جے مال کے اندر آگ بھڑکنے سے 11 افرادجاں بحق جبکہ 5 زخمی ہو گئے تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی
آر جے مال کے اندر آگ بھڑکنے سے 11 افرادجاں بحق جبکہ 5 زخمی ہو گئے تھے —فائل فوٹو: اے ایف پی

سندھ ہائی کورٹ (ایس ایچ سی) نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ کراچی کے راشد منہاس روڈ پر گزشتہ ہفتے شاپنگ مال میں آتشزدگی کے واقعے میں افسران کے ملوث ہونے کےحوالے سے ٹھوس شواہد ملے تو غفلت کے مرتکب عہدیداران کے خلاف فوجداری کارروائی شروع کی جائے۔

سندھ ہائی کورٹ میں عمارتوں میں فائر سیفٹی سے متعلق قوانین پر عمل درآمد اور شہر کی بلند و بالا عمارتوں میں آتشزدگی سے متعلق واقعات کی روک تھام کے حوالے سے دائر درخواست کی سماعت ہوئی اور اسی دوران عدالت نے یہ ہدایات جاری کیں۔

واضح رہے کہ راشد منہاس روڈ پر آر جے مال کے اندر آگ بھڑکنے سے 11 افرادجاں بحق اور 5 زخمی ہو گئے تھے، حکام نے بتایا تھا کہ شاپنگ مال میں مشتبہ شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگی اور عمارت میں وینٹی لیشن نہ ہونے کے باعث اموات ہوئیں۔

اتوار کو پولیس نے شاہراہ فیصل تھانے میں آتشزدگی کے واقعے کی ایف آئی آر درج کی تھی، ریاست کی جانب سے مقدمہ درج کیا گیا لیکن ایف آئی آر میں کسی کو نامزد نہیں کیا گیا ہے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ کے-الیکٹرک اور دیگر اداروں کے ملوث ہونے کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی، جنہوں نے عمارت کے نقشے کی منظوری دی تھی۔

آج جاری ہونے والے حکم نامے میں عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سمیت مدعا علیہان کو 7 دسمبر کے لیے نوٹس جاری کردیے، جس دن جواب یا اعتراضات داخل کیے جائیں۔

حکم میں کہا گیا ہے کہ توقع کی جاتی ہے کہ صوبائی حکومت سمیت تمام متعلقہ حکام انکوائری کے مقصد کے لیے مناسب کارروائی شروع کرنے کو یقینی بنائیں گے تاکہ ایسے المناک واقعے کی وجوہات کا پتا لگایا جا سکے جس سے معصوم شہریوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور اگر ٹھوس مواد پایا جاتا ہے تو انتظامیہ کے مجرم اہلکاروں کے خلاف قانون کے مطابق مجرمانہ کارروائی شروع کی جاسکتی ہے۔

سندھ ہائی کورٹ نے مزید کہا کہ جاں بحق افراد کے اہل خانہ کو پالیسی کے مطابق معاوضہ دینا چاہیے۔

درخواست

سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ عدالت متعلقہ حکام کو ہدایت کرے کہ وہ تمام فائر سیفٹی قواعد و ضوابط کی سختی سے نگرانی کریں جیسا کہ بلڈنگ کوڈ آف پاکستان-فائر سیفٹی پروویژنز-2016 میں درج ہے اور یہ کہ فائر سیفٹی کے قواعد و ضوابط پر سختی سے عمل ہونے تک کسی بھی نئی تعمیر شدہ عمارت کی تکمیل کا سرٹیفکیٹ جاری نہیں کیا جا سکتا۔

درخواست میں چیف سیکریٹری سندھ، سیکریٹری داخلہ، کمشنر کراچی، ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، چیف ایگزیکٹو افسر کنٹونمنٹ بورڈ فیصل، صدر پاکستان انجینئرنگ کونسل اور دیگر کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار ندیم اے شیخ ایڈووکیٹ نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور مؤقف اختیار کیا کہ قوانین اور ضوابط کا نفاذ یقینی بنانے کے لیے ایک ہنگامی ٹاسک فورس کی تشکیل کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ بلڈنگ کوڈ آف پاکستان فائر سیفٹی پروویژن 2016 نافذ کیا گیا تھا، اس سے تمام وفاقی اور صوبائی حکام اور متعلقہ محکموں کو باضابطہ طور پر مطلع کیا گیا تھا لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے ابھی تک کوئی اقدام نہیں کیا گیا ہے۔

درخواست گزار نے عرض کیا کہ زیر بحث قانون میں آتشزدگی سے بچاؤ، آگ سے متعلقہ واقعات میں انسانی جان کی حفاظت اور عمارتوں اور ڈھانچے کی آگ سے تحفظ کے لیے اصول فراہم کیے گئے ہیں۔

راشد منہاس روڈ پر واقع ایک شاپنگ مال میں آتشزدگی کے حالیہ واقعے کے ساتھ ساتھ صوبائی دارالحکومت میں ماضی قریب میں ہونے والے آتشزدگی کے کچھ دیگر واقعات کا ذکر کرتے ہوئے درخواست گزار نے یہ بھی کہا کہ شہر میں ایسے واقعات عام ہیں اور زیادہ تر رہائشی علاقوں میں اس طرح کے واقعات پیش آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی میں تجارتی اور صنعتی ڈھانچے میں آگ سے بچاؤ اور آگ بجھانے کا نظام بالکل بھی نہیں ہے کیونکہ بلڈرز، ٹھیکیداروں اور مالکان نے جان بوجھ کر متعلقہ بدعنوان اہلکاروں کی ملی بھگت سے اپنے ذاتی فائدے کے لیے فائر سیفٹی کے قواعد و ضوابط پر عمل نہیں کیا۔

درخواست گزار کا مزید کہنا تھا کہ متعلقہ حکام کثیرالمنزلہ عمارتوں کی بڑے پیمانے پر تعمیر روکنے کے ساتھ ساتھ آگ اور حفاظتی ضابطوں کی خلاف ورزی پر آرکیٹیکٹس اور بلڈرز کے خلاف کارروائی کرنے میں مسلسل ناکام رہے ہیں۔

انہوں نے دلیل دی کہ کراچی دو کروڑ سے زائد آبادی والا ایک میگا سٹی ہے اور یہاں صرف 22 فائر فائٹنگ اسٹیشنز ہیں، جن میں سے ہر ایک اسٹیشن 10 لاکھ افراد کی ضروریات پوری کرتا ہے جبکہ آگ لگنے کے واقعات میں مجموعی طور پر اضافہ صرف بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ آگ کی حفاظت کے ضوابط کا مشاہدہ کیے بغیر بلند و بالا ڈھانچے اور صنعتوں کی فوری ترقی کی وجہ سے بھی ان میں اضافہ ہوا ہے۔

درخواست گزار نے سندھ ہائی کورٹ سے مزید استدعا کی کہ وہ جواب دہندگان کو ہدایت کرے کہ وہ حادثے میں جاں بحق تمام افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیں اور شہر میں آتشزدگی سے متعلق واقعات کے دوران زخمی ہونے والوں کو بہترین طبی سہولیات اور علاج فراہم کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں