نومولود بچے خراٹے کیوں لیتے ہیں؟

اپ ڈیٹ 29 نومبر 2023
— فائل فوٹو: اسٹاک امیجز
— فائل فوٹو: اسٹاک امیجز

والدین اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ خراٹے لینے والے نومولود بچے گہری نیند میں ہیں لیکن ایسا نہیں ہے، یہ ایک ایسی طبی علامت ہے جس کا فوری علاج کرنا ضروری ہے۔

طبی ویب سائٹ ’ہیلتھ لائن‘ کے مطابق ایک نارمل انسان خراٹے اس وقت لیتا ہے جب وہ نیند کے دوران سانس لیتا اور باہر نکالتا ہے تو وہ اپنی گردن اور سر کے نرم ٹشوز میں لرزش کی وجہ سے خراٹے لیتا ہے۔

یہ نرم ٹشوز ہماری ناک کے راستے، ٹانسلز میں پائے جاتے ہیں۔

جب آپ سوتے ہیں تو ہوا کے گزرنے کا راستہ آرام دہ حالت میں ہوتا ہے، پھر ہوا کو اندر اور باہر جانے کے لیے زور لگانا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے ان ٹشوز میں لرزش پیدا ہوتی ہے۔

دوسری جانب ڈیلی ہیرالڈ کی رپورٹ کے مطابق شکاگو کے سرجن ڈاکٹر طاہر والیکا کا کہنا ہے کہ تقریباً 10 سے 20 فیصد نومولود بچے خراٹے لیتے ہیں، یہ نیند کے مختلف مراحل کے دوران ہو سکتے ہیں، خراٹے لینا بچے کی نیند کی پوزیشن پر بھی منحصر ہوسکتا ہے۔

جب بچہ اپنی پیٹھ پر لیٹتا ہے تو اس کے خراٹے لینے کا امکان زیادہ ہوتا ہے، اس کا تعلق سانس کی نالی کے انفیکشن یا الرجی کی وجہ سے ہوسکتا ہے جسے انگریزی میں ’پرائمری اسنورنگ‘ کہا جاتا ہے۔

تاہم والدین کے پریشانی کا لمحہ اس وقت ہوتا ہے جب بچے اونچی آواز میں خراٹے لے رہے ہوں اور واضح طور پر انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہو، اسے طبی اصطلاح میں apnea pauses کہتے ہیں۔

فائل فوٹو: اسٹاک امیجز
فائل فوٹو: اسٹاک امیجز

تحقیق اس حوالے سے کیا کہتی ہے؟

قبل ازیں ایک تحقیق میں یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ نومولود بچوں کا خراٹے لینا ان کی نیند کی خرابی کی علامات ہیں جو مستقبل میں بچوں کے لیے رویے، جذباتی تندرستی میں طویل مدتی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

یہ تحقیق کچھ سال قبل ’پیڈیاٹرکس‘ نامی جریدے میں شائع ہوئی تھی جس میں محققین کا کہنا تھا کہ جو بچے 6 ماہ کی عمر میں خراٹے لیتے ہیں یا نیند کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے ان میں 7 سال کی عمر تک ہائپر ایکٹیویٹی جیسے مسائل کا 20 سے 100 فیصد تک امکان ہوسکتا ہے۔

اس تحقیق میں انگلینڈ میں 1991 سے 92 میں پیدا ہونے والے 11 ہزار سے زیادہ بچوں کی نیند کی عادات کا تجزیہ کیا گیا۔

تحقیق میں بچوں کے والدین سے بھی سوالات پوچھےگئے، سروے میں بچوں کی نیند کے دوران خراٹے لینے، منہ سے سانس لینے اور سانس لینے میں مختصر وقفے کے بارے میں پوچھا گیا۔

تحقیق سے معلوم ہوا کہ جن بچوں میں نیند کی خرابی کی شدید علامات تھیں (بالخصوص وہ بچے جو 2.5 سال کی عمر کے قریب تھے) ان میں 4 اور 7 سال کی عمر میں اے ڈی ایچ ڈی (Attention Deficit hyperactivity disorder) کی علامات ظاہر ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

تحقیق کی انچارج البرٹ آئن اسٹائن کالج آف میڈیسن سے تعلق رکھنے والی کیرن بونک نے بتایا کہ انہوں نے اور ان کی ٹیم نے تحقیق کے دوران 15 مختلف عوامل پر غور کرنے کو یقینی بنایا جو خراٹے، نیند کی کمی اور رویے کے مسائل سے منسلک ہو سکتے ہیں۔

ان عوامل میں ماں کی تعلیم، خاندانی چیلنجز، ماں کے حمل کے دوران سگریٹ نوشی، اور والد کی ملازمت کی نوعیت جیسی چیزیں شامل تھیں۔

حیرت انگیز طور پر ان عوامل میں بچوں میں نیند کے مسائل اور بعد میں ان کے رویے کے مسائل کے درمیان تعلق میں کوئی فرق نظر نہیں آیا۔

اے ڈی ایچ ڈی کیا ہے؟

اے ڈی ایچ ڈی ایک ایسی بیماری ہے جنہیں اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے، یعنی ایسے بچے جو سمجھانے کے باوجود کام پر دھیان نہیں دے پاتے، بار بار چیزوں کو بھول جاتے ہیں، اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کر پاتے، ڈیڈ لائن پر توجہ نہیں دیتے، جلدی بیزار ہو جاتے ہیں اور اسی لیے والدین یا ٹیچرز سے انہیں سخت باتیں سننا پڑتی ہیں۔

فائل فوٹو: اسٹاک امیجز
فائل فوٹو: اسٹاک امیجز

بچوں میں نیند کی کمی کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟

بچوں میں نیند کی کمی ان کے نشوونما کے لیے نقصان دہ ہوسکتی ہے، اس کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں جن میں وزن میں اضافہ نہ ہونا، ہائپر ایکٹیویٹی ڈس آرڈر، آدھی رات کو پیشاب آجانا، نیند کے دوران ڈر جانا شامل ہے۔

اگر آپ کے بچے کو یہ علامات ظاہر ہورہی ہیں تو فوری طور پر ماہر اطفال سے رجوع کریں۔

خراٹوں کا ان مسائل سے کیا تعلق ہے؟

کیرن بونک کا کہنا ہے کہ نیند کے دوران دماغ خلیات اور کیمیکلز کے توازن کو بحال کرتا ہے، جب نیند میں خلل آتا ہے، تو دماغ کو اپنی ضرورت کے مطابق آکسیجن حاصل نہیں ہوتی اور وہ ضرورت سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ حاصل کرتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ عدم توازن ممکنہ طور پر ’پریفرنٹل کورٹیکس‘ یعنی شعور و ادراک والے دماغ کے حصے میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے، چھوٹی عمر میں آکسیجن حاصل کرنے میں مسائل بڑی عمر میں سنجیدہ مسائل بن سکتے ہیں۔

اس حوالے سے والدین کو چاہیے وہ ماہر اطفال سے رجوع کریں تاکہ مستقبل کے سنگین مسائل سے بچنے کے لیے جلد ہی بچے کا علاج کیا جاسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں