سپریم کورٹ کی ہدایت پر 2017 میں فیض آباد انٹرچینج پر تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ تین رکنی کمیشن نے فواد حسن فواد سے پوچھ گچھ کی، جو اُس وقت کے وزیراعظم کے پرنسپل سیکریٹری تھے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ پوچھ گچھ کے دوران سابق بیوروکریٹ اور کمیشن کے اراکین کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ ہوا، اور پینل کی جانب سے کچھ سوالات پر فواد حسن فواد بظاہر ناراض نظر آئے۔

ایک موقع پر وہ کمرے سے باہر جانے کے لیے کرسی سے بھی اٹھے لیکن کمیشن کے اراکین مزید سوالات پوچھنے کے لیے انہیں روکنے میں کامیاب رہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد حسن فواد کو کمیشن کے دفتر پہنچنے پر بطور وفاقی وزیر خصوصی پروٹوکول دیا گیا ۔

ذرئع نے بتایا کہ سابق بیوروکریٹ کو کرسی کے بجائے صوفے پر بٹھایا گیا، انہیں چائے اور پانی کی پیش کش بھی کی گئی، لیکن انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا۔

کمیشن نے فواد حسن فواد سے ٹی ایل پی کے دھرنے کے دوران پرنسپل سیکریٹری کے کردار کے بارے میں پوچھا۔

انہوں نے بتایا کہ بطور پرنسپل سیکریٹری ان کا اس معاملے سے کچھ لینا دینا نہیں تھا، ایسے معاملات میں متعلقہ سیکریٹری اور وزیر براہ راست وزیراعظم کو رپورٹ کرتا ہے۔

موجودہ نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد اس وقت کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت اجلاس کے شرکاء میں سے ایک تھے، جس میں ٹی ایل پی کے ساتھ بات چیت کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

کمیشن نے پوچھا کہ کیا سابق سیکریٹری کو پولیس چیف اور مقامی انتظامیہ نے دھرنے کے دوران امن و امان کے حوالے سے بریفنگ دی تھی اور کیا انہوں نے یہ تفصیلات وزیراعظم سے شیئر کی تھیں۔

یہ بھی پوچھا کہ کیا وزیر اعظم نے سابق سیکریٹری کے ساتھ پولیس چیف اور کمشنر کو بھیجنے کے لیے کوئی ہدایات شیئر کی ہیں۔

ان سوالات نے سابق پرنسپل سیکریٹری کو ناراض کیا اور انہوں نے کمرے سے باہر جانے کی کوشش کی، تاہم کمیشن نے انہیں مزید سوالات کے لیے رکنے پر راضی کیا۔

بظاہر ناراض نظر آنے والے فواد حسن فواد نے اراکین کو بتایا کہ وہ کمیشن کو تسلیم نہیں کرتے اور دعویٰ کیا کہ یہ کمیشن قوانین کے مطابق قائم نہیں کیا گیا۔

ذرائع کے مطابق مزید استفسار پر فواد حسن فواد نے کمیشن کو بتایا کہ انہوں نے 2014 کے دھرنے کے دوران پولیس اور انتظامیہ کے افسران کو حکومت کے پیغامات کی ہدایات اور ان کی ترسیل کی تھی، ذرائع نے مزید بتایا کہ سابق بیوروکریٹ کو’ مزید تفصیلات یاد نہیں’

فواد حسن فواد 2017 کے دھرنے کی تفصیلات بھی کمیشن کو نہیں بتا سکے کیونکہ ’انہیں مزید تفصیلات یاد نہیں تھیں‘۔

اس پر کمیشن کے اراکین نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ سابق سیکریٹری کو 2014 کے دھرنے کی تفصیلات یاد ہوسکتی لیکن 2017 کی نہیں، اس نے فواد حسن فواد کو پریشان کیا، اور انہوں نے کہا کہ وہ کمیشن کے ’مسند ہونے‘ کو تسلیم نہیں کرتے۔

انہوں نے کمیشن کو بتایا کہ انہیں سفری مصروفیات کے سبب جانے کی ضرورت ہے، کمیشن نے سابق سیکریٹری کو سوالنامہ تھما دیا، جس میں ایک درجن سے زائد سوالات موجود ہیں، اور ان سے تحریری جواب دینے کی ہدایت کی گئی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں