آئندہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے تناظر میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے ملک کے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دینے والے کچھ حساس مشاہدات پر روشنی ڈالی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایچ آر سی پی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عام انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے کچھ وضاحت کی ہے، جس سے غیریقینی کی صورتحال کچھ کم ہوئی ہے، تاہم مسلسل بنیادوں پر انتخابات میں تاخیر کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، جس سے غیریقینی کو ہوا مل رہی ہے۔

آزادیوں پر پابندی، خاص طور پر اجتماع اور اظہار رائے کی پابندی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوئے، انتخابی مہم میں رکاوٹیں سامنے آئیں، پارٹی رہنماؤں کو گرفتاریوں، گمشدگیوں اور مظاہروں میں شرکت پر رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑا۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابی نشان برقرار رکھنے کے لیے انٹراپارٹی الیکشن کی درخواست کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) میں اندرونی طور پر مشکلات کا شکار ہے، اسی طرح پی ٹی آئی نے آنے والے انتخابات سے قبل نئے چیئرپرسن کے انتخاب کے لیے جدوجہد کی۔

اپنے جائزوں میں ایچ آر سی پی نے کہا کہ 18ویں ترمیم کے ممکنہ رول بیک کے ساتھ ساتھ قومی مالیاتی کمیشن کے فارمولے کے بارے میں ایک تشویشناک بحث ہے۔

ایچ آر سی پی کے مطابق خاص طور پر بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی مسائل برقرار ہیں، جبکہ تربت میں ماورائے عدالت قتل کے الزامات نے سیکیورٹی خدشات میں اضافہ کیا ہے۔

سینیٹ میں فوجی عدالتوں کی حمایت کرنے والی ایک متنازع قرارداد کی بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف سے سخت مخالفت کی گئی۔

حتی کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے میں شہریوں کے فوجی ٹرائلز کو غیر آئینی قرار دینے کے بعد سابق فوجی افسران کو ’بغاوت پر اکسانے‘ کے جرم میں سزا کا سامنا کرنا پڑا، جس سے قانونی تضادات کے بارے میں خدشات پیدا ہوئے۔

انتخابی فہرستوں میں صنفی فرق برقرار ہے، جس نے ایک اہم مسئلہ کو اجاگر کیا جس پر فوری توجہ کی ضرورت ہے۔

جیسے جیسے انتخابات قریب آتے گئے، ان مشاہدات نے پاکستان کے سیاسی منظر نامے کو تشکیل دینے والے پیچیدہ چیلنجوں اور تناؤ کی نشاندہی کی، جس سے آگے ایک اہم انتخابی عمل کا آغاز ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں