الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا

اپ ڈیٹ 19 دسمبر 2023
الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے پی پی
الیکشن کمیشن کے 5 رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی—فائل فوٹو: اے پی پی

الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کی انٹرا پارٹی انتخابات کے خلاف درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

چیف الیکشن کمشنر کی زیر سربراہی 5 رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی، پی ٹی آئی کی جانب سے بیرسٹر علی ظفر اور گوہر خان پیش ہوئے۔

وکیل پی ٹی آئی بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے بتایا کہ اس سوالنامے میں 40 سوال ہیں، 40 سوال تین کیٹیگریز میں آئے ہیں، میں الیکشن کمیشن کے خلاف نہیں ہوں اور نہ ہی الیکشن لڑنا چاہتا ہوں مگر 40 سوالات سامنے آنے پر مجھے مایوسی ہوئی ہے، مجھے گزشتہ روز تک ان چالیس سوالات کا نہیں معلوم تھا۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کمیشن نے فیصلہ کرنے سے قبل مناسب سمجھا کہ ان چالیس سوالات کا جواب لیا جائے، کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے ان سوالات کو سماعت میں مقرر کیا گیا ہے، ہم چاہتے ہیں یہ کیس جلدی ختم ہو۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ آپ ہماری فکر کر رہے ہیں، ہم سے پوچھا گیا کہ فارم 65 پر چیئرمین نے کیوں دستخط کیے؟ قانون کہتا ہے کہ پارٹی سربراہ کو فارم 65 پر دستخط کرنا ہوگا، مسلم لیگ (ن) کے شہباز شریف اور عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کے اسفندیار ولی خان نے بھی دستخط کیے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیوں ہورہا ہے؟ بتا دیں مجاز شخص نے دستخط کرنے ہیں یا پارٹی کے سربراہ نے؟ یہ ایسا معاملہ نہیں ہے کہ آپ انتخابی نشان روک دیں گے۔

بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے ہمیں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا، ہم الیکشن کرواچکے ہیں، سوالنامے میں سوال نمبر ایک کی کوئی مطابقت نہیں ہے،

انہوں نے بتایا کہ دوسرے سوال میں الیکشن سے قبل شیڈول اور ووٹر لسٹیں مشتہر نہ کرنے کا سوال پوچھا گیا، ہم نے کسی کو انٹرا پارٹی الیکشن لڑنے سے نہیں روکا، الیکشن کمیشن اس کیس میں براہ راست متاثرہ فریق نہیں ہے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ تیسرے سوال میں پوچھا گیا نیشنل کونسل کیوں نہ بنائی اور وفاقی الیکشن کمشنر کیوں مقرر نہیں کیا؟ یہ ایسا ہی سوال ہے کہ پہلے مرغی آئی یا انڈہ، جب تک الیکشن نہ ہو جائیں نیشنل کونسل کا قیام ممکن نہیں، اعتراض کیا گیا کہ الیکشن شیڈول میں چیئرمین کے نام کا ذکر نہیں ہے۔

کیمشن کے ممبر جسٹس اکرام اللہ نے کہا کہ قانون کے مطابق الیکشن دو حصوں میں ہونے ہیں، قانون کے مطابق چیئرمین کے انتخاب کا الگ سے شیڈول نہیں دیا گیا۔

اس پر وکیل نے جواب دیا کہ ووٹنگ ہی نہیں ہوئی تو دو حصوں میں انتخاب کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، آئندہ انتخابات دو حصوں میں ہوں گے، قانون کے مطابق کچھ عہدوں کی مدت تین سال اور کچھ کی پانچ سال ہے،کیا اس سوال پر الیکشن کالعدم ہونا چاہیے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات دو حصوں میں کیوں نہیں کرائے؟

یہ پی ٹی آئی کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، بیرسٹر علی ظفر

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ یہ پی ٹی آٸی کے ساتھ امتیازی سلوک ہے، پارٹی سربراہ کے انتخاب کا سوال تمام سیاسی جماعتوں سے ہونا چاہیے۔

اس پر چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ ہم نے باقی سیاسی جماعتوں سے پوچھا ہے، ابھی تفصیل بتانے کا وقت نہیں ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے استفسار کیا کہ تمام سیاسی جماعتوں سے کیوں نہیں پوچھا گیا کہ ان کے عہدیدار کیسے بلامقابلہ منتخب ہوئے؟ کمیشن کے ممبر نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں سے یہ ہوچھا گیا ہے۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ اگر باقی سیاسی جماعتوں سے بلامقابلہ انتخاب کا پوچھا ہے تو انہیں سرٹیفیکیٹ کیوں جاری کیا گیا؟ اس پر جسٹس اکرام اللہ کا کہنا تھا کہ جنہیں سرٹیفیکیٹ جاری کیا گیا انہوں نے الیکشن کمیشن کو مطمئن کیا ہو گا۔

وکیل تحریک انصاف نے کہا کہ سوال اٹھایا گیا کہ پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات کے رولز کی کاپی نہ الیکشن کمیشن میں جمع کرائی گئی نہ ہی ویب سائٹ پر ہیں، قانون میں پابندی نہیں کہ پارٹی کے رولز کی کاپی الیکشن کمیشن میں جمع کرائی جائی،

انہوں نے بتایا کہ قانون کے مطابق پارٹی کے آئین کی کاپی جمع کروانی ہوتی ہے، ہم نے رولز کی کاپی پرنٹ کرائی اور ویب سائٹ پر بھی ڈالی، الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم نے کس قانون کے تحت یہ سوال اٹھایا؟ 175 میں سے صرف 20 سیاسی جماعتوں کی ویب سائٹ ہے، باقی سیاسی جماعتوں کی ویب سائٹس کیوں نہیں ہیں؟

کمیشن کے رکن نثار درانی کا کہنا تھا کہ باقی چھوٹی جماعتیں ہوں گی اس لیے ان کی ویب سائٹس نہیں ہوں گی، آپ کی جماعت بڑی سیاسی پارٹی ہے اس لیے اس کی ویب سائٹ ہونی چاہیے۔

اس بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ پارٹی چھوٹی ہو یا بڑی قانون سب کے لیے ایک ہی ہونا چاہیے، ہم نے 3 دسمبر کو انٹرا پارٹی انتخابات کراۓ اور چار دسمبر کو الیکشن کمیشن میں نتائج جمع کرائے، اعتراض اٹھایا گیا کہ جب الیکشن تین دسمبر کو کروائے تو 4 دسمبر کی تاریخ کیوں درج کی؟ اس اعتراض کی بنیاد پر ہمارا انتخابی نشان روک لیا گیا، الیکشن کمیشن کی قانونی ٹیم نے ایسے سوالات کن سیاسی جماعتوں سے کیے ہیں؟

درخواست گزار کے وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کو یہ دیکھنا چاہیے کہ انٹرا پارٹی انتخابات ہوئے ہیں یا نہیں، ہمیں سیکیورٹی چاہیے تھی، ہمارے لوگ آتے ہیں، اٹھائے جاتے ہیں، ہم سے پوچھا گیا کہ کمشنر پی ٹی آئی پشاور ڈویژن سے کیا معلومات لی گئی، ہم نے الیکشن کمشنر پی ٹی آئی پشاور ڈویژن کو جو لیٹر لکھا وہ الیکشن کمیشن میں جمع کرا دیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہم چاہتے تھے انٹرا پارٹی انتخابات پر الیکشن کمیشن کے احکامات کی تعمیل ہو، ہم نے کوشش کی کہ پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی انتخابات قانون کے مطابق اور شفاف ہوں، ممبران کی ووٹر لسٹ مہیہ نہ کیے جانے کا سوال اٹھایا گیا، ہماری رابطہ ایپ پر آٹھ لاکھ سے زائد ممبرز ہیں جنہیں کوئی بھی دیکھ سکتا ہے، ووٹر لسٹ کو ویب ساٸٹ پر نہ ڈالنے کا سوال غیر قانونی ہے، ووٹر کا شناختی کارڈ اور رابطہ نمبر دینے سے اس کی تفصیل دیکھی جا سکتی ہیں۔

بیرسٹر علی ظفر نے استدعا کی کہ الیکشن شیڈول جاری ہو چکا ہے، کیس کا فیصلہ جلد کیا جائے، اس پر چیف الیکشن کمشنر نے جواب دیا کہ ہمیں بھی احساس ہے۔

بعد ازاں الیکشن کمیشن نے فیصلہ محفوظ کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی۔

سماعت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ دیگر جماعتوں سےنہیں صرف پی ٹی آئی سے سوالات پوچھے گئے، ووٹنگ اس وقت ہوتی ہے جب امیدوار ایک سے زیادہ ہوں، الیکشن کمیشن نےکہا تھا 20 دن میں الیکشن کراؤ، بہت سے سوال ایسے تھے جن کا تعلق نہیں تھا اس کیس سے، آج فیصلہ محفوظ ہوگیا ہے دیکھیں کب جاری ہوتا ہے۔

چیئرمین پی ٹی آئی گوہر علی خان نے کہا کہ ہم نی الیکشن کمیشن کو ہر سوال کا جواب دیا، ہم نے بتایا کہ ہم نے پراسس قانون اور آئین کے مطابق مکمل کیا، میں الیکشن کمیشن سے کہتا ہوں کہ آپ سرٹیفیکٹ ویب سائٹ پر چڑھائیں یہ عام انتخابات کا سوال ہے، ہمیں آئین اور قانون کے مطابق فیصلہ آنے کی امید ہے، کمیشن ہمیں مایوس نہیں کرے گا، ہمیں ہمارا نشان ملے گا لیکن اگر ہمیں یہ نہیں ملتا تب بھی ہم نے بی پلان تیار کیا ہوا ہے وہ بھی لوگوں سے شیئر کریں گے۔

بیرسٹر علی ظفر کا کہنا تھا کہ جس طرح دلائل پیش کیے ہیں آج ہم نے تو انشااللہ ہمیں انتخابی نشان مل جائے گا، ہم پازیٹو ہیں لیکن ہمارا پلان بی اور پلان سی بھی تیار ہے۔

نادرا کا پی ٹی آئی رہنماؤں کے شناختی کارڈ بلاک کرنے کے حوالے سے سوال پر گوہر علی خان نے بتایا نادرا نے یہ وضاحت دی ہے کہ انہوں نے بلاک نہیں کیے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ بلاک کرنے سے الیکشن پر اثر نہیں پڑے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں