منظور پشتین کی 2 مقدمات میں ضمانت منظور

26 دسمبر 2023
عدالت نے  منظورپشتین کی تیس تیس ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی—فائل فوٹو:ٓ آئمہ کھوسہ
عدالت نے منظورپشتین کی تیس تیس ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی—فائل فوٹو:ٓ آئمہ کھوسہ

انسداد دہشت گردی عدالت اسلام آباد نے پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے رہنما منظور پشتین کی 2 مقدمات میں درخواستِ ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی۔

ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق منظور پشتین کی درخواست ضمانت پر سماعت اےٹی سی جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے کی، پراسیکیوٹر راجا نوید اور منظور پشتین کے وکیل اے ٹی سی میں پیش ہوئے۔

پراسیکیوٹرراجانوید نے کہا کہ منظورپشتین نے ایک ہجوم کی سربراہی کی، منظورپشتین نے سرکاری اداروں کے خلاف تقاریر کیں۔

پراسیکیوٹر راجانوید نے منظورپشتین کی درخواست ضمانت خارج کرنے کی استدعا کی جب کہ وکیل صفائی نے مؤقف اپنایا کہ منظورپشتین کو سیاسی انتقام لینے کے لیے کیس میں ملوث کیاگیا، منظورپشتین نے کسی سرکاری ادارے کے خلاف بات نہیں کی۔

فریقین کے دلائل سننے کے بعد اےٹی سی نے منظور پشتین کی تھانہ سی ٹی ڈی میں درج دونوں مقدمات میں ضمانت منظور کرلی۔

عدالت نے منظورپشتین کی تیس تیس ہزار روپے مچلکوں کے عوض ضمانت منظور کی۔

یاد رہے کہ رواں ماہ 4 دسمبر کو ڈپٹی کمشنر چمن راجا اطہر عباس نے ایک بیان میں کہا تھا کہ منظور پشتین کو اُن کی گاڑی سے پولیس پر فائرنگ کیے جانے پر گرفتار کرلیا گیا ہے۔

یہ بیان پی ٹی ایم کے اس بیان کے تقریباً 4 گھنٹے بعد سامنے آیا تھا کہ مبینہ طور پر منظور پشتین کی گاڑی پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے اس وقت فائرنگ کی گئی جب وہ چمن سے تربت جا رہے تھے، جہاں مبینہ طور پر ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج کیا جارہا تھا۔

ڈان نیوز ڈاٹ ٹی وی سے بات کرتے ہوئے راجا اطہر عباس نے کہا کہ لیویز اور پولیس اہلکاروں نے پی ٹی ایم رہنما کو گداموں کے علاقے سے گرفتار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’آج مال روڈ پر منظور پشتین کی گاڑی سے پولیس پر فائرنگ کی گئی جس کا مقدمہ بھی پی ٹی ایم رہنما کے خلاف درج کیا گیا ہے۔‘

انہوں نے کہا تھا کہ منظور پشتین کو آج کے واقعے کے ساتھ ساتھ ان کے بلوچستان میں داخلے پر پابندی کے سلسلے میں گرفتار کیا گیا۔

یاد رہے کہ اپنی گرفتاری سے قبل منظور پشتین نے تربت میں بالاچ مولا بخش کے مبینہ ماورائے عدالت قتل کے خلاف احتجاج میں شرکت کا اعلان کیا تھا۔

یہ احتجاج 24 نومبر کے بعد سے جاری تھا جب سی ٹی ڈی نے بالاچ مولا بخش کو 3 دیگر افراد سمیت ایک مقابلے میں قتل کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں